کچھ جنگ کے بارے میں ۔ فرید مینگل

480

کچھ جنگ کے بارے میں
تحریر: فرید مینگل
دی بلوچستان پوسٹ

جنگ اگر ایک نٸی زندگی، ایک تخلیق یا ایک نئی سماجی تشکیل کےلیے ہو تو وہ جنگ بربادیوں کے پیچھے اپنے اندر بہت ہی پرسکون زندگی و خوشحالی کا راز رکھتی ہے اور پھر نٸی بہار کا سبب بھی بنتی ہے۔ اگر یہی جنگ فقط طاقت کے حصول کےلیے ہو، گروہی و ذاتی مفادات کےلیے ہو، انا اور ضد کے نام پر ہو تو وہ جنگ اپنے ہر قدم ہر بڑھاٶ کے ساتھ تباہی و بربادی لاتی ہے۔ انسان کُش بن کر بے رحم وحشت پھیلاتی ہے قتل و غارت تباہی کا سامان پیدا کرتی ہے۔

وڈھ میں حالیہ مورچہ بندی جنگ کی دوسری قسم کے پیراٸے میں ہے جس کا نتیجہ صرف اور صرف تباہی ہے کیونکہ اس کی بنیاد میں تخلیق و نٸے سماج کی تشکیل کا عنصر شامل ہی نہیں، بلکہ ایک جانب یہ طاقت کے حصول کی جنگ ہے تو دوسری طرف اپنی طاقت کو بچاٸے رکھنے کی۔ دونوں اطراف سے کوشش اور مقابلہ یہی ہے کہ طاقت کے ”مراکز“ کو سب سے لمبا سجدہ کون کر سکتا ہے، سب سے سستے میں کون بِک سکتا ہے؟ جبر کا مارا مورچہ زن عام آدمی نجات کا طلب گار ہے اور نجات دہندہ گول داٸرے میں گھماٸے رکھنے کا ماہر۔

مگر یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ بعض دانشوروں کے برعکس مجھ ادنٰی طالب علم کا دعویٰ ہے کہ یہ جنگ قباٸلی جنگ ہرگز نہیں۔

ایک طرف گزشتہ دو دہاٸیوں سے ریاست کی طرف سے خوب پال پوس کر جوان کرکے تشکیل کردہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ ہے۔وہ ڈیتھ اسکواڈ جس کی تشکیل سے لے کر آج تک ریاست خود اسے نہ صرف معاشی طور پر کمک فراہم کرتی رہی ہے بلکہ اس کی حفاظت تک کی ذمہ داری براہِ راست ریاست ہی کے ذمے رہی ہے۔ وہی ڈیتھ اسکواڈ جس نے بلوچ وطن بالخصوص شال سے لے کر کراچی تک کے پورے علاقے کو اپنی زورآوری و ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ وہی ڈیتھ اسکواڈ ہے جس نے خضدار شہر کی گلی، سڑکوں کو خون سے نہلایا اور مسخ شدہ لاشوں کے انبار لگاٸے، اس ڈیتھ اسکواڈ کی شکل میں جبر و موت کا فرشتہ رقص کرتا رہا اور خواتین، بچے، بوڑھے قتل و اغوا ہوتے رہے۔

یہ وہی ڈیتھ اسکواڈ ہے جس نے توتک میں ایک پوری نسل کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا اور توتک میں مسخ شدہ لاشوں کے اجتماعی قبرستان بناٸے۔ شال میں اسی جتھے نے شہید بالاچ مری کے گھر پر قبضہ کیا اور بلوچ روایات کی خلاف ورزی کرکے ان چوروں اچکوں نے ہر چیز بیچ ڈالی۔ خضدار و وڈھ تو مقتل گاہ بن چکے ہیں اور مزید شرمناک باب یہ کہ ڈیتھ اسکواڈ کے اس لشکر کے ہاتھوں خواتین کی اغوا کاری کی خبریں بھی عام ہیں۔

دوسری طرف ریاستی بے حسی و بربریت، اغوا براٸے تاوان، بھتہ خوری، چوری ڈکیتی، راہزنی و قتل غارت سے پریشان حال عوام ہیں۔ یہ وہ عوام ہیں جنہوں نے ایوبی آمریت سہا، بھٹو بگٹی کی فوج کشی برداشت کی، مشرفی آمریت کو سہا، ڈیتھ اسکواڈ کے رحم و کرم پر رہے، بزرگ، خواتین و بچے توہین و تذلیل کا نشانہ بنے، درندوں کے ہاتھوں جان مال یہاں تک ماٶں، بہنوں کی عزتوں کی پامالی کی گئی۔

یہ جبر دو دہاٸیوں سے جاری ہے، یہاں نہ جان محفوظ ہے نہ مال و عزتِ نفس۔ اس گروہ کے ہاتھوں سماج کی تمام تر روایتیں، اپناٸیت، ایک دوجے کےلیے اقدار و احترام تہس نہس کیے جا چکے ہیں۔ آج وڈھ میں ایک کاروباری شخص سے لے کر ایک عام دوکاندار تک ہر کوٸی ان جراٸم پیشہ افراد کو بھتہ دینے پر مجبور ہے، اور بھتہ نہ دینے والوں کا حشر شہید ہدایت اللہ لہڑی و شہید نانک مینگل کی طرح بے وقت و دردناک موت ہوتا ہے۔ اور اس ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں اب تک درجنوں لوگ قتل کیے جا چکے ہیں، اربوں روپے بھتہ وصول کیا جا چکا ہے۔ اور تو اور 2013ء میں اس لشکر نے وڈھ میں بازار بندی کرکے پورے ایک سال تک عوام کو فاقہ کشی پر مجبور کیے رکھا۔

ایسے میں ضروری یہ تھا کہ انتظامیہ ایکشن لیتی، مگر وہ خود آج بھی لیویز، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے افراد کی صورت میں اس گینگ کی حفاظت پر تعینات ہے۔

عوام کی اس در پردہ حالت پر سیاسی جماعتوں کو ایکشن لینا چاہیے تھا، مزاحمت کرنی تھی، لیکن سیاسی جماعتوں نے بلوچ و بلوچ وطن کے بجاٸے حکومت، وزارت، مراعات و ٹھیکہ کمیشن کو اپنے لیے بہتر سمجھا اور اسی کے ہو کر رہ گئیں۔ نیشنل پارٹی وزارتِ اعلٰی پر قربان ہوا تو بی این پی دو قدم آگے بڑھ کر گورنرشپ و مرکزی حکومت کی شیداٸی نکلی، عوام کےلیے وہی بھتہ خور، وہی رہزن، وہی قاتل و اغوا کار۔ 2018ء کے الیکشن میں نیشنل پارٹی باقاعدہ اس جتھے سے اتحاد قائم کیا اور پیپلز پارٹی اس وقت اتحادی ہے۔

آج بی این پی کو جبر و ظلم کے مارے عوام کو ایک منظم آواز دینی چاہیے تھی، انہیں ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف منظم کرکے باقاعدہ ایک سیاسی و مزاحمتی تحریک کا آغاز کرنا چاہیے تھا۔ جہاں جبر کے مارے بیزار عوام اب موت سے گزر جانے کو بھی تیار ہیں، اور کسی بھی طرح کسی بھی حالت میں اس درندگی، لوٹ مار، بھتہ خوری، توہین، اور اغوا کاری سے نجات چاہتے ہیں۔

مگر قیادت کا فقدان دیکھیے کہ قیادت اس بیزار و بپھرے عوام کو منظم طریقے سے، باقاعدہ کسی سیاسی تحریک سے گزارنے اور ایک مزاحمتی عمل کے ذریعے ڈیتھ اسکواڈز کے مکمل خاتمے کی طاقت بنانے کے بجاٸے مورچہ زن کر چکی ہے اور آہستہ آہستہ ان کے غم و غصے کو زائل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ بالفرض یہ مورچہ بندی جنگ تک بھی چلی جاتی ہے تو نقصان پھر بھی عوام کا ہوگا، دونوں جانب سے عام بلوچ ہی مریں گے۔ اس کے بعد پھر جبر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا کیونکہ آج ریاستی اسکواڈ نے پوری طاقت کے ساتھ اور قومی جماعتوں کی سیاسی بزدلی، موقع پرستی کے سبب ہر گھر تک رساٸی حاصل کی ہے۔

پچھلے الیکشن میں بی این پی نے چھ نقاط کے گرد الیکشن کیمپیٸن چلاٸی، جس میں لاپتہ افراد کا مدعا بھی تھا اور ڈیتھ اسکواڈز کا بھی، بی این پی مسلسل پانچ سال خاموش رہا، نہ لاپتہ افراد کےلیے تحریک چلا سکی نہ ڈیتھ اسکواڈز پر پانچ سال میں کچھ بول پایا، نتیجتاً اس ”شش نقاتی“ پروگرام کا بدصورت نتیجہ وفاقی حکومت، قدوس حکومت، سیندک و ریکوڈک فروشی، ٹھیکہ و مراعات اور گورنری و مشیری پر منتج ہوا، اس بار بھی الیکشن قریب ہیں۔۔۔۔۔۔۔ باقی خداٸے پروردگار ہماری رکھوالی کرے۔

پارلیمانی جماعتوں کی بزدلی، وطن فروشی کو دیکھتے ہوٸے دیگر غیر پارلیمانی بلوچ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو آگے بڑھ کر اس مسٸلے میں واضح بیانیے کے ساتھ قیادت سنبھالنی چاہیے تھی اور بلوچستان بھر میں “ڈیتھ اسکواڈ مخالف” ایک تحریک چلانی تھی، مگر وہ بھی اتنے کند ذہن و کوتاہ نظر ہیں کہ تحریک تو دور کی بات، واضح بیانیہ تک دینے میں ناکام ہیں۔ برمش کی تحریک کو واضح طور پر ایک ڈیتھ اسکواڈ مخالف تحریک میں بدلنے کی بھرپور خاصیت موجود تھی مگر ان یاروں نے بے جا غیر منطقی مداخلت کر کے اس تحریک کو ازخود قتل کر ڈالا اور کراچی و شال بیسڈ ”کمیٹی“ بنا کر خود کو مطمٸن کر بیٹھے ہیں۔ یعنی کہ تحاریک کچلنے کی باقاعدہ غلطیاں بلکہ جراٸم پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ ساتھ غیر پارلیمانی جماعتیں اور کمیٹیاں بھی کر چکی ہیں اور دانستہ طور پر کرتی آ رہی ہیں۔

اس امر میں آج عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ وڈھ سمیت بلوچستان بھر میں اپنا نجات دہندہ خود بنیں اور ایک منظم تحریک کی شکل میں ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف اپنی صفیں درست کریں۔ لیڈر یا پھر کسی کمیٹی کی دھوکہ دہی سے بچتے ہوئے سیاسی اختیار اپنے ہاتھ میں لیں، ہر عام خاص کو اعتماد اور طاقت دیتے ہوئے ڈیتھ اسکواڈز کے مکمل خاتمے کے گرد احتجاج کریں، مظاہرے کریں، دھرنے دیں، ڈیتھ اسکواڈ کی محافظ انتظامیہ کو بھی چیلنج کریں اور اس تحریک کو پورے بلوچستان کی تحریک بنانے کا جتن کریں، پورے وطن سے بھتہ خوروں، چوروں، اچکوں، ڈاکوٶں اغوا کاروں کے خاتمے کا مطالبہ کریں۔

بی این پی اس وقت “وڈھ کی مخدوش صورت حال” پر بلوچستان بھر میں ریلیاں نکال رہی ہے مگر بیانیہ اور مطالبات اور پروگرام واضح نہیں، حتٰی کہ بی این پی دوسرے ریجنز، شہروں، علاقوں میں احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد کر رہی ہے مگر وہیں پر جبر کے مارے وڈھ کے عوام کےلیے کوٸی ریلی، کوٸی احتجاج نہیں ۔ انہیں بس مورچوں میں بٹھا کر خیر خیریت کا درود پڑھایا جا رہا ہے۔ وڈھ کے عوام کو مسلح ہونے سے زیادہ مزاحمت، ہمت، شعور و تواناٸی، جلسہ جلوس احتجاج و دھرنا ہی میسر کر سکتے ہیں اور ان درندوں سے لڑنے اور نجات عطا کرنے کا حوصلہ فراہم کر سکتے ہیں۔

لہٰذا نجات کا واحد حل ایک عوامی سیاسی مزاحمت ہے، عوام ان مظالم کے خلاف از خود نکلیں ورنہ یہ رہبر، پارلیمانی جماعتیں اور غیر پارلیمانی کمیٹیاں عوامی جذبات و غم و غصے کو فقط فوٹو سیشن، مورچہ بندی و بیان بازی کی نظر کرکے عوام کو جھوٹی تسلی دیتی رہیں گی اور یہ ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے ہمارا قتل عام کرکے ہماری کئی اور نسلیں بھی کھا جائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔