کوہ زادوں کا کوہستان – کوہ دل بلوچ

393

کوہ زادوں کا کوہستان

تحریر: کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا جہاں میں کئی ایسے قومیں ہیں جو پہاڑوں کو عقیدے کی نظر سے دیکھتے ہیں تاریخ کے پنوں کو اگر پلٹا جائے تو کوہ و جبل باغیوں کا کمین گاہ بھی رہے ہیں اور چرواہوں کے ریوڑ کا چراگاہ، پہاڑیوں کے اہمیت کا وضاحت مجھ جیسے عام انسان سے نہیں ہو سکتا، کوئی دانشور یا زانتکار شخص ہی ان خوبصورت پہاڑ اور وادیوں کا اہمیت شاید بتا سکتا ہو ہم نے بس یہ دیکھا ہے اور محسوس کیا ہیکہ پہاڑ اکثر مصیبتوں میں ایک ماں کی مامتا، بہن کی مہر، بھائی کا کاندھا اور باپ کا سایہ بن کر آپ کو آغوش میں لیکر پناہ دیتی ہے، یہ پہاڑ ہی تو ہے جو دشمن کو چلنے کا راستہ تک نہیں دیتا لیکن آپ کیلئے ایسے باہیں پھیلا کر کھڑی رہتی ہے جیسے برسوں سے کوئی ماں اپنے لاپتہ بیٹے کے راہ پر منتظر ہوکر اُسے گلے لگانے کی تمنا لیئے بیٹھی ہو، ایک ایسے بہادر اور نڈر باپ کی طرح سینہ تان کر یہی کہہ رہا ہوتا ہے آجا بیٹا برسوں ہوئے تجھے گلے لگانے کا آس لیئے راہیں تک رہا ہوں، یہ پہاڑ بہن کی محبت و خدمت کا دوسرا روپ اور بھائی کا کاندھا ہو جیسے، آپ تشنہ لب خشک ہونٹ لئے جب اس جبل میں کسی چشمے یا چکُل پہ پہنچ کر اپنا ہونٹ تر کردیتے ہو ایسا لگتا ہے جیسے محبوبہ کے ہونٹوں کا وہ لمس ہے جس سے پینے کے بعد محبوب مراقبہِ عشق میں غرق ہو جاتا ہے، یہ پہاڑ ہی تو ہے جو بُلندیوں کا احساس دلاتا ہے بادلوں کو چھونے کا منظر، ہواؤں سے شرارت، عشق کی معنی اور محبت کی منزل عطا کر دیتی ہے، پہاڑوں کی منظر وصلِ یار کی سینگار ہو جیسے، یہی وہ خوبصورتی ہے جو جنگ کو وحشت سے بدل کر ایک آرٹ میں بدل دیتی ہے، پہاڑ کے چوٹیوں کو سر کرتے کرتے جب آپ کی سانسیں تیز ہو جاتے ہیں ایسا لگتا ہے اگلا سانس لیتے ہی میرا دم رُک جائے گا مگر جب آنکھیں چار سو نظارہ دیکھنے لگ جاتے ہیں تو ایک تازہ دم مل جاتا ہے ایک نئی دنیا کا حسین چہرہ آنکھوں میں پکاسو کا پینٹنگ بن کر دل لبھانے لگتا ہے، میں جب بھی اُس مشہور افسانہ نگار کا وہ افسانہ جس میں وہ محبوبہ کی باہیں چھوڑ کر ماں کے گود کیلئے دوڑ لگاتا ہے پڑھتا ہوں تو اُس میں وہ ماں کی کردار یہاں سرمچاروں کیلئے بلوچستان کے کوہ و جبل ادا کر رہی ہوتی دکھائی دیتی ہیں.

ایک زمانہ تھا وطن ماں ہوتی تھی اور اب بھی ہے لیکن اب کے راج دوست اور وطن پرستوں نے اس فلسفے کو ہی یک دم مختلف بنا دیاہے، اب تو وطن محبوب و محبوبہ بن گئی ہے یقین نہیں آتا تو بانک شاری کے آخری لفظوں کو دیکھئے جس میں وہ وطن کو محبوب کہہ کر پکارتی ہے اور عشق کا تقاضا ہی یہی ہے فدا ہوجانا فنا ہوجانا اور پھر صدا امر ہوجانا، کسی کیلئے یہ کعبہ ہے قبلہ ہے یقین کریں آپ کبھی کوہساروں کے کوہستان چلے جاؤ کئی ایسے سر میں نے وہاں دیکھے ہیں جن کا سجود صرف اسی خاک کیلئے ہے، وہاں ایسے بھی روشن خیال جہد کار ہیں جنہوں نے وطن کے چراغ کو ہمیشہ فروزاں رکھے ہیں، وہاں سرفروں کا ایک قبیل ہے جو اپنا لہو دیکر کبھی بھی اس چراغ کو بجھنے نہیں دیئے ہیں، کسی نے تو وطن کو اپنا گواڑخ کہا تھا اُس نے جاتے جاتے یہ الفاظ بھی تاریخ کے اوراق میں رقم کردیا کہ میرا گواڑخ آبیاری کیلئے میرا لہو چاہتا ہے لہذا مجھے اپنا خون دینا ہوگا تاکہ گواڑخ صدا مہکتی رہے اور اُس نے پہلی دفعہ ہلک سے وطن کے گواڑخ کو لہو پیش کرکے آخری گولی کے فلسفے کا بانی بن گیا، ایسے کئیوں گمنام باغی ہیں جن کے نظر میں وطن اُن کیلئے الگ وجود رکھتی ہے، مُرید کا ہانی ہے تو مست توکلی کا سمو ہے، جب بہتے چشموں کی، جھرنوں کی، گھاٹوں کی ٹپ ٹپ اور آب شاروں کی آواز مست سُنتا ہے تو وہ کہتا ہے یہ سمو کی آواز ہے، جب جب وہ بلوچستان کے پہاڑوں میں چلتا ہے تو سمو اس کے آس پاس نظر آتی ہے، جب رسترانی کوہ کے گوات اُسے چھو لیتا ہے تو وہ کہتا ہے سمو آگئی میں اُس کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتا، یہ گُل زمین بلوچستان ہے جس نے وطن ماں کے فلسفے کو مزید ہزاروں رنگ بخش دیئے جیسے مُرید کا ہانل اور پنہوں کا سسی ہے بلوچستان، مُرید سالوں تک کسی کو نظر نہیں آتا ہانی شب و روز چاکر کے ماڑیوں میں مُرید کا ورد کرتی ہوئی نظر آتی ہے سب سے یہی سنتی ہیکہ کہ مُرید مکہ گیا مُرید مدینے میں ہے لیکن مُرید کے پیروں کا نشان نہ عرفات میں ملتے ہیں نہ قبلہِ مسلمین کے میدانوں میں شہ مُرید کے قدموں کا نشان تو اسی بلوچستان میں نظر آتے ہیں اگر ہانی کی مُرید کسی مکہ گیا تھا تو وہ مکہ کوئی دوسرا دھرتی نہیں بلکہ اُس کا اپنا سرزمین بلوچستان تھا اور ہے اس لئے مُرید کے چاہنے والے یہی کہتے رہتے ہیں کہ “تاکہ دنیا ہست ءِ شہ مُرید مست ءِ” یہاں اگر دیکھا جائے تو مُرید کا ہانی گُل زمین ہے جو اُس کا محبوبہ ہے اور یہی وہ وطن ہے جو کوہی کیلئے “شیرین” ہے، یہ بلوچستان ہے جو سسی کو مکران کی اُور کھینچ لیتی ہے وہ سسی جس کے سانسوں میں پنہوں ہے اور پنہوں کے وطن کو سسی نے ہر قدم پر دعائیں دی اور مہرستان کا نام عطا کردیا بلوچوں کے پُنہوں آج بھی سسی کا اس لئے مقروض ہیں کہ سسی نے سچائی کا چادر اوڑے ننگے پیر اُن کے سرزمین پر سفر کی، اُن کا لاج رکھا اور ان وطن پرستوں کے تاریخ کا ایک خوبصورت لوک داستان بن گئی.

شاعروں کیلئے ردیف ہے قافیہ ہے بحر ہے کوئی اس کے زُلفوں میں قید ہے تو کوئی اس کے بدن کو سنگ مرمر سے تراشتی ہے کوئی اسے اپنے لہو سے سجاتا ہے، کوئی اپنے لفظوں سے لافانی خدا بناکر کافر بن جاتا ہے تو کوئی اسے اپنا تہذیب کا پُختہ ثبوت کہہ کر پیش کرتا ہے، لکھاریوں کیلئے یہ بابا خیربخش مری کی سادگی ہے یا پھر اُستاد شہید کا وہ شعور جسے دنیا کا کوئی بھی علم، منطق یا سائنس رد نہیں کر سکتا، مجھ جیسے ادنیٰ لکھاریوں کیلئے یہ امیر کا وہ فلسفہ ہے جس پر تمام سرمچار گامزن ہیں، یہ ساتک کے سرونز سے نکلتی ہوئی وہ سرور بھری ساز ہے جو روح اور وطن کے رشتے کو جوڑ دیتا ہے، یہ شکور کا دروشم اور زبیر کی بہادری ہو جیسے، وطن اب کے فنکاروں کیلئے موسیقی کا سُر ہے، گیت ہے، سنگیت اور لے ہے، بلوچستان اب صرف دھرتی ماں نہ رہی یہ ہر جگہ ہر کیفیت و ہر دور میں اپنا حسین روپ لیئے قائم ہے اس نے ہمیں عشق کے ع ش ق سے آشنا کردیا، ناشناساؤں کو شناسی بخشی، نابینوں کو بینائی دیا، کسی کا مندر ہے تو کسی کا مسجد، کسی کیلئے گیتا ہے تو کسی کیلئے قرآن، جس دھرتی کو نوروز خان سے قرآن کے نام پر دھوکہ دے کر قبضہ کر لیا گیا آج وہ دھرتی خود قرآن بن کر دل اور روحوں میں عقائد بن کر ہمیشہ کیلئے اپنا وجود بنا لیا ہے، میں کیسے انکار کرلوں کہ یہ سب محض دیوانگی کے حد تک کی باتیں ہیں جبکہ کسی سرمچار کا آخری گولی جو خوشی خوشی اپنے ہلک میں گاڑ دیتا ہے وہی گواہ ہیکہ میرا کوئی بھی الفاظ بے معنی نہیں، وہ کیسا لمحہ ہوگا جب ایک سرمچار آخری گولی کا انتخاب کر لیگا وہ کیسا پل ہوگا چہرے پہ مُسکان، آنکھوں میں اُمید، پُر حوصلہ، کانوں میں تکبیرِ وطن، شانوں پہ امر صدا امر کردینے والے فرشتیں، دماغ میں عشقِ وطن، سانسوں سے لڑائی، باہوں میں بندوق کو لیتے ٹریگر پر اُنگلی، ہلک پر بیرل رکھ کر کلمہِ وطن پڑھ کر، رازوں کے انبار کو لیئے ایسے ہواؤں میں خود کو تحلیل کر دیتا ہے کہ اُسے بس نورانی آنکھیں ہی فضاء میں اُڑتے ہوئے دیکھ پاتے ہیں، ایسے وطن زادوں کیلئے وطن کا اپنا ایک الگ وجود ہوتا ہے الگ رشتہ ہوتا ہے.

پہاڑوں کی سنگتی کبھی گران نہیں گزرتی اس کی گران قدر قیمت کسی سرمچار سے کوئی پوچھے، آپ نے بہار میں پھولوں کو دم توڑتے دیکھا ہے؟ آپ نے کبھی تلاروں میں تنہا انجیر کے درخت دیکھیں ہیں؟ آپ نے کبھی پہاڑوں کے انار چکھ لئے ہیں؟ آپ نے کبھی پہاڑی میوے کھائے ہے؟ نہیں ناں آپ کیا جانوں انارترک درخت کے سائے کی ٹھنڈک، آپ نے تو زندگی اے سی اور پنکھے روم میں گزار دی، آپ نے کبھی خط کےدرختوں کے پتوں سے چائے بناکر پی ہے؟ جس میں نکوٹین تو نہیں ہے مگر چائے میں جو چاہت ہوتی ہے وہ میں نے اس میں محسوس ضرور کئے ہے، تم نے تو ہر ماہ روشن چاند کو بھی شہر کی مصنوعی روشنی میں پھیکی رنگ میں دیکھے ہے ہم نے تو منزلیں پالئے ہیں اس کی روشنی میں، اماوس کی رات کو آپ نے کبھی گھر سے دور پہاڑوں میں پیدل چل کر سفر نہیں کئے ہیں تو کوہ زادوں کے کوہستان چلے جاؤ تجھے ہر سرمچار کے آنکھوں میں تاریک رات کے ہر پہر میں وطن کا جلتا ہوا چراغ فروزاں ملے گا وہ آپ کو گُھور اندھیر راتوں میں محوسفر ہوتا دکھائی دینگے، ستاروں کے ہمراہ اگر منزلیں طے کرنی ہے تو ایک بار وطن زادوں کے ساتھ وطن اور قوم کے درد لئے صرف ایک رات سفر طے کرلے آپ کو ان ستاروں کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا تم نے اگر ستاروں کی روشنی میں منزلیں تلاشنا ہے تو بولان باہیں پھیلا کر آپ کا منتظر ہے، آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ پسینے کی وجے سے کسی کے کپڑے ٹھٹرتے ہوئے پھٹ جائیں اور ہر جگہ پیوند لگی ہو؟ میں نے دیکھا ہے سرمچاروں کے پیوند لگے کپڑے ٹوٹے ہوئے جوتے اور سوتے وقت پتھروں کو تکیہ بناتے، بیشک ان کا ضمیر ان کی قومی غیرت ان کا قومی فکر ان کے کپڑوں کی طرح پیوند لگا ہوا نہیں ہے یہی وہ دردخوار بلوچ فرزند ہیں جو میرے لئے مکمل آزاد اور مکمل انسان ہیں، آپ نے کبھی جنگ میں اپنے ساتھیوں کو بچھڑتے دیکھا ہے؟ آپ نے کبھی لہو لُہان گولیوں سے چھلنی بدن دیکھے ہے؟ آپ نے کبھی زخمی ساتھی کو کاندھے کا سہارا دیا ہے؟ آپ کبھی بھی اپنے ساتھیوں کو اُن کے گاؤں اور شہر سے دور کسی پہاڑ کے سینے میں مدفون کی ہے؟ آپ نے بنا کفن میتیں دیکھے ہے؟ آپ نے جنگ میں گاؤں کے گاؤں جلتے دیکھے ہے؟ آپ تو بلکل بھی یہ منظر نہیں دیکھے ہونگے کہ کسی کے پورے خاندان کو لائن میں کھڑی کرکے گولیوں سے بھون دیا جائے صرف اس جُرم میں کہ وہ ایک بلوچ ہے، ہم نے ایسے بہت سارے منظر دیکھے ہیں محسوس کیئے ہیں اور سنے ہیں بلوچستان کے کونے کونے میں کچے کمروں کی ویران بستیاں جلتے ہوئے جھونپڑیوں کے باقیات، فصلوں کی جگہ جڑی بوٹیوں نے زرخیز زمینوں کو گھیر لئے دیکھے ہیں جہاں کبھی فصلوں کی خوشبو مہکا کرتی تھی، ہم نے دیکھے ہیں ایسے ویران شہر جہاں کبھی میلے لگتے تھے، ہم نے اپنے ہاتھوں سے جگری یاروں کو پھسلتے دیکھا ہے جو لوٹ کر واپس کبھی نہیں آئیں، ہم نے ایسے بھی سنگت دیکھے جنہوں نے بھاری پلٹنوں کو روکا اور ساتھیوں کو نکلنے کی تلقین کی اور آخری گولی تک دشمن کو آگے آنے نہیں دیا، ہم نے اپنے ہی یاروں کے لہو سے اپنا کپڑا لعل دیکھا یہ وہ لہو تھے جنہوں نے ہمیں شعور بخشے قوتِ فیصلہ عطا کردی اور وطن کے چراغ کو کبھی گُل ہونے نہیں دیا، آپ نے کبھی دیکھا ہے دور بہت دور پہاڑوں میں کسی سرمچار کو نڈھال، بےآرام، بے چین، ٹوٹتا ہوا بدن،آنکھوں سے اُٹھتی ہوئی تپش، پیروں میں آبلے، کاندھوں پہ نیل، ہونٹوں پہ تشنگی، یا سانپ و بچھو کے کاٹنے کے بعد درد کو آبِ شفا سمجھ کر پیتے؟ آپ نے کبھی دیکھا ہے ایسے وطن دوست ہستیاں جن کے گھر نہیں ہوتے ہر برسات میں ہر دھوپ میں ہر طوفان میں بنا چھت بنا دیوار کے سالوں گزارتے ہیں جو ہر دور میں ہر سخت موسم کا سامنا کرتے ہیں آپ یقیناً ان بلوچ زادوں کے حالات سے واقف نہیں آپ نے تو شہر کے اُن گلیوؤں میں زندگی گزاری ہے جہاں احساس کا جنازہ برسوں ہوئے اُٹھا لیا گیا ہے جہاں اب بےحسی کا بسیرا ہے جہاں اب انسان کے روپ میں بےحس بتوں کا بھیڑ ہے جن کو پوجا تو نہیں جاتا لیکن وہ اپنی زات کو ہی اکیلا عبادت کے لائق سمجھ کر مجسمے کا روپ دھار چکے ہیں، ایک بےجان پتھر اور بےحس انسان میں فرق بس اتنا ہے کہ پتھر ٹھوس، بےجان اور بے ہنگم شے ہے اور انسان گوشت و پوست کا ایک لاشعور جانور ہے، بےحسی وحشت بھری موت کی مانند ہے، بشرطیکہ حساس دل سینوں میں دھڑک رہا ہو،

تُم ایک دن ننگے پیر چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے دیکھو یقیناً آپ سے نہیں ہو پائے گا ہم نے پہاڑوں میں پتھریلی اور کانٹے دار راستوں پہ سرمچاروں کو ننگے پیر چلتے دیکھا ہے وہ دن ہم کیسے بھول سکتے ہیں جب کسی نئے ساتھی کا جوتا ٹوٹ جائے تو دوسرا سرمچار ساتھی اپنا جوتا اُتار کر اُس کے پیروں میں دے اور خود ننگے پاؤں چلتا بنے اور کئی گھنٹوں کا سفر پیروں میں آبلہ اور زخم پڑنے کے باوجود بھی طے کرے، اسے میں مہر کی انتہا کہوں یا وطنِ عشق کی انتہا؟ یہ عشق و شعور کی انتہا نہیں تو کیا ہے کوئی وطن زادہ یہی کہہ کر جنگ کا حصہ بن جاتا ہیکہ کہ اب آزادی لیکر گھر لوٹ جائیں گے یا پھر وطن کے پرچم میں لپٹی ہوئی گاؤں واپس لوٹینگے، ہم نے ایسے دیوانوں کی صحبت میں اب تک زندگی گزاری جنہوں نے وطن و قوم کے آنے والے روشن دنوں کیلئے دکھ اور تکالیفوں کا سامنا کرتے آئے ہیں کوئی ایک ہی وقت میں اپنے خاندان کے لاشیں قطار میں رکھا ہوا دیکھے پھر بھی اُف تک لبوں سے نہ پھسلیں، کوئی اپنے تمام خاندان کو ایک ہی وقت میں لاپتہ ہوتے دیکھے پھر بھی کہے ایثار کا حد درجہ طویل ہوتا ہے، کوئی سالوں تک اپنے وطن و گھر سے دور کسی جنگی میدان میں شب و روز مرگ مرگ لڑ رہا ہو اور پھر بھی مڑکر یہی کہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا ہے تو میں اس جنون کو کونسا نام دوں؟ میں تو مقروض ہوں اس تحریک کا اس جہدِ مسلسل کا جس نے مجھے الفاظوں کا ذخیرہ مہیا کردیا آج میں صفحہ قرطاس پر انہیں اتارا جا رہا ہوں، یہ عظیم ہستیوں کی کردار ہے جنہوں نے ہمیں لکھنے کا سلیقہ بخشا شاعری کی ہنر سکھا دی اور مزاحمت کا درس دیا، بغاوت وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کو موت سے آنکھیں لڑانا آتا ہو بغاوت ہر کسی کے بس کا کام نہیں ایک مکمل انسان ہی باغی بن سکتا ہے اور یہ مزکورہ سارے کردار بغاوت جانتے تھے اور جانتے ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔