کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہرہ

115

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ میں ریلی نکالی گئی اور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا-

مظاہرے میں مختلف جماعتوں، طلباء تنظیموں کے ارکان سمیت اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی-

مظاہرے سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ،نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ روز بہ روز سنگین ہوتا جارہا ہے ایسا گھر نہیں بچا ہے جس گھر سے کوئی بندہ لاپتہ نہ کیا گیا ہو-

انہوں نے کہا لاپتہ افراد کی بازیابی کا سلسلہ مکمل طور پر رُک گیا ہے جبکہ بلوچستان کی مختلف علاقوں سے گزشتہ مہینے چالیس سے زائد بلوچوں کو جبری طوپر لاپتہ کیا گیا ہے ہم ریاست سے اپیل کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے تا کہ انکے خاندانوں کو اس انتظار سے نجات ملے۔

مظاہرے میں کوئٹہ سے جبری گمشدگی کے شکار جمیل احمد سرپراہ کی اہلیہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے شوہر گذشتہ آٹھ سال سے جبری طور پر لاپتہ ہیں اس تمام دؤرانیہ میں میں اپنے شوہر کی بازیابی کے لئے تمام تر کوششوں کو بروکار لائی تاہم میرے شوہر کو تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے-

مظاہرے میں شریک خضدار سے تعلق رکھنے والی سائرہ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ پانچ سالوں سے اپنے لاپتہ بھائیوں کے انتظار میں ہے ان پانچ سالوں میں انہوں نے وہ تمام ازیتیں دیکھی جو لاپتہ افراد کے اہلخانہ دیکھتے ہیں اب ریاست کو چاہئے وہ اس ظلم کو بند کرے اور ہمارے پیارے ہمیں لوٹا دیں-

آج کے مظاہرے میں نیو کاہان کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ متعدد لاپتہ مری بلوچوں کے اہل خانہ نے شرکت کی جنکا کا کہنا تھا انکے پیارے کو سالوں قبل فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جو تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں-

لواحقین کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ریاستی اداروں نے آج تک متعدد بلوچ گھروں کے چراغوں کو جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے انکے پیارے سڑکوں پر فریاد لیکر اپنے پیاروں کے واپسی کے منتظر ہیں لیکن انھیں سننے والا کوئی نہیں نا اس ملک میں کسی قانون کسی ادارے کو ان مظالم سے فرق پڑتا ہے جو بلوچوں پر سالوں سے جاری ہے-

کوئٹہ مظاہرین نے حکومت اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو روکے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرائیں-

مظاہرین کا مزید کہنا تھا آج بلوچ کسی بھی جگہ محفوظ نہیں چاہے وہ بلوچستان ہو یا بلوچستان سے باہر، اب تو حالات یہ ہیں کہ جو نوجوان پنجاب کے تعلیمی اداروں میں موجود ہیں انھیں بھی ایک ایک کرکے لاپتہ کیا جارہا ہے اگر اس سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو نہیں روکا گیا تو نتائج بہت بھیانک ہونگے-