کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

108

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5103 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر غلام نبی مری، موسی بلوچ، بی ایس او کے صمند خان بلوچ اور دیگر نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم پر سفاکیت اگرچہ روز اول سے جاری ہے مگر حالیہ چند برسوں سے اس نے بے پناہ شدت اختیار کرلی ہے جو بدلتی ہوئی سیاسی رشتوں اور سماجی معاشی رویوں کے تناظر میں شدید ہوتا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آبادیوں پر فوجی کارروائیوں کی صورت میں ظلم کے پہاڑ توڑنے کے ساتھ ساتھ حالیہ متشرانہ جابرانہ اقدامات میں 2001 سے شروع ہونے والے مارو اور پھینک دو کی پالسی اب تک بھیانک ترین ہے جو بلوچستان کے طول عرض میں جبری طور پر اغوا کئے گئے بلوچ فرزندوں کی خفیہ ٹارچر سیلوں میں شدید جسمانی تشدد کے بعد لاشیں مسخ کرکے پھینکے پر منتج ہے۔

انکا کہنا تھا کہ کھٹ پتلی سرکار نے نہ صرف اس کا تسلسل برقرار رکھا ہوا ہے بلکہ جس منصوبہ بندی کے تحت جمہوری ڈھونک کے ذریعے اقتدار سونپا گیا تھا اب اس کی پاسداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے بلوچ عوام میں بڑھتے ہوئے سیاسی شعوری رجحانات اور بلوچ قومی تحریک کی عالمی پزیرائی سے پاکستان اور اس کے ہمنوار بے حد خائف ہو گئے ہیں اور اپنی نوآبادیاتی استصالی پالیسوں کی ناکامی کو بھانپ کر پاکستان کی عسکری سیاسی سول بیوروکریسی گھبرا کر نت نئی حکومت عملی کے تحت بے دریغ بلوچوں کی جانوں کے خاتمے پر تلے ہوئے ہیں پہلے لاشیں ویرانوں سے ملتی تھیں اب اجتماعی قبروں برآمد ہورہی ہیں جس کی مثال خضدار توتک اور کوئٹہ تیرہ میل ہیں ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جبر کے اس سنگین ماحول میں سب اہم ترین اور حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ پر خطر مستقل مزاجی سے اپنا قومی فریضہ نبھارہے ہیں۔