پاکستانی فوجی سربراہ کا افغان طالبان کو انتباہ

512

پاکستانی فوجی سربراہ نے کہا ہے کہ اگر افغان سر زمین سے پاکستان کو نشانہ بنانے والوں کو روکا نہ گیا تو پاکستانی فورسز ’مؤثر جواب‘ دیں گی۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے ہمسایہ ملک افغانستان میں برسر اقتدار افغان طالبان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ افغان سرزمین پر موجود ان عسکریت پسندوں کو روکنے میں ناکام رہے، جو سرحد پار پاکستان میں حملے کرتے ہیں تو ان کی فورسز اس کا مؤثر جواب دیں گی۔

پاکستانی فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کی طرف سے یہ سخت بیان رواں ہفتے پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے دو حملوں کے بعد سامنے آیا ہے جن میں پاکستانی فوج کے 12 اہلکار مارے گئے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعہ 14 جولائی کو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں فوجی افسران سے ملاقات میں عاصم منیر نے ان حملوں میں مارے جانے والے فوجی اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا۔ بدھ کے دن کیے گئے ان حملوں کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں سات عسکریت پسند بھی مارے گئے۔

خیال رہے کہ پاکستانی صوبہ بلوچستان میں پاکستانی طالبان کے علاوہ شدت پسند گروپ داعش بھی سرگرم ہے۔ پاکستانی طالبان، افغان طالبان سے الگ گروپ ہے تاہم یہ افغان طالبان کا اتحادی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی بلوچ علیحدگی پسند بھی گیس اور دیگر معدنیات سے مالامال اس صوبے میں اکثر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

بدھ 12 جولائی کو کیے جانے والے ایک حملے کی ذمہ داری حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایک عسکریت پسند گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی تھی۔ ژوب کی فوجی چھاؤنی میں کیے جانے والے اس حملے میں نو پاکستانی فوجی مارے گئے۔

اسی روز ضلع سوئی میں کیے گئے دوسرے حملے میں پاکستانی فوج کے تین اہلکار مارے گئے جس کی ذمہ داری بلوچ آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن ٹائیگرز نے قبول کی۔

جنرل عاصم منیر سے منسوب الفاظ کے مطابق انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستانی طالبان کو جو محفوظ جگہ اور کارروائیاں کرنے کی جو آزادی حاصل ہے، اس پر پاکستان کی مسلح افواج کو شدید تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کی اُمید رکھتے ہیں کہ افغان طالبان اپنے ان وعدوں کا پاس رکھیں گے جو انہوں نے واشنگٹن کے ساتھ 2020ء کے معاہدے میں کیے تھے، جن کے مطابق افغان طالبان کسی بھی دہشت گرد گروپ کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکیں گے۔

جنرل عاصم کا مزید کہنا تھا کہ اگر وہ ان ’’ناقابل برداشت حملوں کو روکنے میں ناکام رہے تو اس کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔‘‘

خیال رہے کہ اگست 2021ء میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان بھی کافی فعال ہو گئی ہے اور بلوچستان میں پاکستانی فوج اور پولیس پر کیے جانے جانے والے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری یہ گروپ قبول کرتا رہا ہے۔