نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( پانچواں حصہ)
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر ہونے کے وجہ سے نواب نوروز کو باقی شہداء کے ساتھ پھانسی نہیں دی گئ بلکہ ان کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ نواب نوروز پچیس دسمبر انیس سو پینسٹ کو حیدر آباد جیل میں انتقال کرگئے، ان کے ایک فیملی ممبر کے بقول نواب صاحب نے جو کپڑے آخری دن پہنے تھے خاندان والوں کے پاس محفوظ ہیں ان کپڑوں پر خون کے دھبے موجود تھے جیسے کسی نے ان کے کھانے میں کچھ ملا کر انھیں کھلایا ہو۔
ان تمام معاملات میں ایک چیز قدرے مشترک ہے بقول مرحوم عطاءاللہ خان مینگل کے وہ اس تحریک کا ایک سپاہی ہے پھر چاہے وہ زبانی طور خاموشی سے اپنے دل میں اس کے ساتھ جڑا رہے اب یہ چاروں بزرگ شخصیات جو تحریک میں ستون کی مانند ہیں کمال کی متاثر کن کردار تھے وہ بزرگی چاہے بگٹی کی ہو، نوروز کی، مری یا مینگل کی۔
راشد سعید جو حیدر آباد جیل میں ان دنوں سپریڈنٹ تعینات تھے جب نواب نوروز اور ان کے ساتھی ادھر قید کی سزا کاٹ رہے تھے انھوں نے ” سیاسی زنداں نامہ “کے عنوان سے ایک کتاب لکھی، جس میں اس دور کے حیدر آباد جیل میں قید تمام قیدیوں کا زکر ہے ، نواب نوروز کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ، نواب صاحب ‘ فطرتا انتہائی درجے کے خوددار آدمی تھے ان کے اخلاق صبر و تحمل کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف وہ اپنی عبادت و ریاضت کا مظاہرہ نہ کرتے تھے بلکہ جیل کی طرف سے جو کچھ انھیں دیا جاتا وہ اسی پر قناعت کر لیتےتھے جبکہ باقیوں کا یہ حال تھا جیسے آخری بار کھارہے ہوں لہذا وہ کھانے پر لڑتے جھگڑتے دوسری طرف ناجائز فرمائش اپنی جگہ نواب صاحب جائز فرمائش بھی نہ کرتے ان کے اس شرافت سادگی اور روئیے کو دیکھتے ہوئے ہم خود ہی اپنی طرف سے میڈیکل آفیسر سے کہا کہ انھیں سامان ضرورت مہیا کرے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ان کا چھوٹا بیٹا جلال خان جو جوان ہو چکا تھا اپنے چار بھائیوں کی پھانسی اور باپ کی گرتی صحت کو دیکھ کر اپنا زہنی توازن کھو بیٹھا تھا مگر نواب صاحب اکثر انھیں سمجھاتے یہاں تم نواب نہیں سیاسی قیدی ہو تو اسی حیثیت میں رہو ، جلال خان مرحوم ابھی چند سال پہلے وفات پا گئے وہ واقعی اپنا دماغی توازن کھو چکے تھے حالانکہ انھیں عمر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے پھانسی نہیں دی گئی تھی مگر درد تکلیف اذیت کی وجہ سے وہ زہنی طور پر مکمل مفلوج ہوچکے تھے جیسے آج کل بہت سے مسنگ پرسنز بازیاب ہونے کے بعد اپنا زہنی توازن کہو چکے ہوتے ہیں۔
نواب صاحب کی وفات کے بعد بھی جلال خان پابند سلاسل رہے، وہ لکھتے ہیں آخری وقت میں نواب صاحب جب بیمار ہوئے تو باربار علاج کے لئے لکھنے کے باوجود سرکار نے انھیں علاج کی اجازت نہ دی اور وہ اسی حالت میں امر ہوگئے۔
جاری ہے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔