قومی شعور اور سیاسی نابالغی ۔ میار بلوچ

452

قومی شعور اور سیاسی نابالغی 

تحریر: میار بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک بہت سے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے آج ایک تناور درخت کی شکل میں موجود ہے۔ آج بلوچ قومی تحریک کی بازگشت بلوچستان کی پہاڑوں سے نکلتے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں جا پہنچی ہے۔ موجودہ تحریک نے ماضی کے مدمقابل بلوچوں کی پہچان، زبان، ثقافت ؤ الگ قومی شناخت اور آزادی کے سوال کو ایک اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔

آج دنیا بھر میں بلوچ قومی سوال کی بازگشت، بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد سے واقفیت کی بنیاد بلوچ قومی جنگ کا مسلسل طور پر جاری رہنا ہے۔ ماضی کے برعکس موجودہ جنگ دو دہایوں سے جاری ہے، اس جدوجہد میں ایک انتہائی اہم موڑ اس وقت سامنے آیا جب بلوچ لبریشن آرمی کے فدائی برگیڈ مجید برگیڈ نے پہلا فدائی حملہ کیا، اس حملے میں بلوچستان میں دہشت کی علامت سنجھنے جانے والے شفیق مینگل کو فدائی درویش مری نے نشانہ بنایا۔

بی ایل اے نے اپنے پہلے فدائی حملے کے بعد کم از کم سات سالوں بعد دوسرا فدائی حملہ دوہزار اٹھارہ میں چینی انجینئرز پر بلوچستان کے علاقے دالبندین میں کیا۔ جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی گئی۔ دالبندین حملے کے بعد سے لیکر اب تک بلوچ لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ نے بہت سے مہلک حملے کیے ہیں، جن میں گوادر میں پی سی ہوٹل پر حملہ، کراچی اسٹاک ایکسینچ اور چینی قونصل خانہ پر حملہ، پنجگور اور نوشکی میں پاکستانی فوج کے مرکزی کیمپوں پر حملہ آور ہوکر بہتر گھنٹوں تک جنگ جاری رکھنا۔ گوادر میں فورسز اور چینی کانوائے پر فدائی حملہ، کراچی میں کنفیوشس انسٹیٹوٹ کے اساتذہ پر پہلی خواتین فدائی شاری بلوچ کا انتہائی مہلک حملہ، اور چوبیس جون دوہزار تئیس کو سمیعہ قلندرانی کا انتہائی اہم فوجی یا انٹیلنجس ٹارگٹ پر حملہ شامل ہیں۔

ایک طرف بلوچ لبریشن آرمی کا مجید بریگیڈ ماضی کے فرسودہ جنگی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی ہدف پر انتہائی مہلک انداز سے حملہ ہوکر بلوچ قومی تحریک کو ایک نئی جہت بخشنے میں مصروف عمل ہے۔ جہاں نہ صرف بلوچ فرزند اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں بلکہ وہیں بلوچ دختران بھی بلوچ وطن کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کرتے ہوئے بلوچ سماج کی قدامت پسند روایات کو بھی پس پُشت ڈال کر بلوچ قومی جدوجہد میں جدیدیت اور صنفی برابری کی اعلیٰ مثال قائم کررہی ہیں۔

تو وہیں بلوچ قومی تحریک سے وابسطہ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو شروع دن سے ہی مختلف حیلے بہانے بناکر فدائی حملوں پر تنقید کے نام پر منفی پروپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ یہ گروہ کبھی یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ عالمی سطح پر بلوچ قومی تحریک پر پابندیاں عائد کی جائینگی تو کبھی یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ فدائیں حملوں میں موجود لوگوں کو پڑھنا لکھنا اور جدوجہد کرنا چاہیے، کبھی یہ کہتا دکھائی دیتے ہیں خواتین کو جنگوں کا حصہ نہیں بنانا چاہیے، اور پھر سب سے بڑھکر فدائی حملوں میں شامل شہداء کی تذلیل کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں استعمال کیا جاتا ہے پھر جب سوال کیا جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شہداء میں فرق نہیں رکھتے اور تمام شہداء کی یکساں عزت ؤ احترام کرتے ہیں۔

بلوچ فدائین کے بارے یہ کہنا کہ انہیں زندہ رہکر کسی اور طرح سے جدوجہد کرنا چاہیے تھا یا فدائی حملہ کے بجائے کوئی اور طریقہ ہائے کار کا استعمال کرکے دشمن پر حملہ کرنا چاہیے تھا یا یہ کہنا کہ زندگی موت سے بہتر ہے، یا یہ کہہ دینا کہ تمام سرمچار فدائیں ہیں۔ تو یقینی طور پر ایسی جملہ بازیاں ایسے بیانات ہماری سیاسی بالغی پر بہت سے سوال اٹھاتے ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ قومی آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل تمام مسلح سرمچار زندگی اور موت کے درمیان ایک باریک لائن پر اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ حملہ آور ہوکر دشمن پر ضرب لگانے سمیت اپنی حفاظت کو بھی یقینی بنانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہوئے جائے وقوعہ سے زندہ اور محفوظ نکلنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اور دشمن پر ایک مخصوص فاصلہ سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ جبکہ فدائی حملہ آور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خندہ پیشانی سے اپنی زندگی کو قومی غلامی کے خاتمہ کے نظریہ پر فنا کردیتے ہیں۔

بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے مختلف رائے رکھنا تنقید کرنا یا کسی بھی عمل سے اتفاق نہ کرنا کسی بھی انسان کا فردی، گروہی یا جماعتی حق ہوسکتا ہے۔ لیکن شہیدوں کی قربانیوں بے حرمتی، انکے عمل کی بے حرمتی، اس انتہائی دلیرانہ عمل کی بے حرمتی یا پھر دانستہ طور پر ہر ایک فدائی حملہ کے بعد کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر اسکی مخالفت یقینی طور پر کسی طرح بھی قومی جدوجہد برائے آزادی نیک شگون نہیں، ایسے عمل نہ صرف بلوچ قومی شہیدوں کی قربانیوں کی تذلیل کے مترادف ہیں، بلکہ یہ ان شہداء کے اہلخانہ کی دل آزاری کا بھی سبب ہیں۔

آج بلوچ قومی تحریک جس نہج پر کھڑی ہے، وہاں ہر ایک بات، ہر ایک بیان، ہر ایک ٹوئیٹ، ہر ایک تقریر، ہر ایک تحریر تاریخ کا حصہ ہیں۔ آج کے ان حالات میں بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اگر کسی کو قومی شہداء کی تذلیل کرنے، ان کیخلاف زہر افشانی کرنے، انکی جدوجہد اور قربانیوں کو یہ کہنا کہ انہیں کسی کمانڈر نے استعمال کیا ہے اور بعد میں یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی جائے کہ انہونے شہداء کے حوالے کچھ نہیں کہا وہ تمام شہداء کی عزت و احترام کرتے ہیں تو یقیناً وہ خود فریبی کا شکار ہیں، اور جو لوگ ایسے کرداروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے انکے ہر ایک ناقابل معافی عمل پر انہیں معاف کروانے اور مزید توانائی بخشنے کا کام کرتے ہیں یقیناً ایسے کردار بھی آج کے نوجوانوں کے سامنے عیاں ہیں۔

آج کے پر آشوب دور کے تقاضوں میں سب سے اہم تقاضہ یہ ہے کہ ادارتی بنیادوں پر سنگین فیصلے کئے جائیں، اپنی صفحوں میں موجود کالی بھیڑوں کو پہچان کر انکا احتساب کیا جائے، مصلحت پسندی اور دباؤ کا شکار ہوکر خاموشی نہ اختیار کی جائے، اگر آج احتساب نہ کیا گیا، اگر آج شہداء کے وارثوں کی دل آزاری کرنے والے کرداروں کو اپنی صفحوں سے نہ نکالا گیا تو بلوچ قوم اور تاریخ موجودہ قومی قیادت کو کبھی معاف نہیں کریگی اور انہیں یقیناً ناکارہ اور بے معنی لیڈرشپ کے طور یاد کرینگے جن کے پاس نہ تو فیصلہ سازی کا اختیار تھا اور نہ ہی وہ آزادانہ طور پر قوم کے رہنمائی کرسکتے تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں