طاقت کے حصول کی خاطر جنگ
تحریر: بختاور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
وڈھ ضلع خضدار کا ایک قدیم اور تاریخی تحصیل ہے۔ یہ صوبہ بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ کے جنوب مغربی حصّے میں واقع ہے۔ دشوار گزار پہاڑی علاقہ وڈھ میں بلوچوں کی آبادکاری ہے جن میں مینگل قبیلے کے لوگ اکثریت میں ہیں۔ وڈھ پر مختلف حکمرانوں کی حکمرانی رہی ہے جن میں مکران،قلات اور دیگر علاقے بھی شامل ہیں۔
بہرحال اگر بات کی جائے وڈھ کی موجودہ صورتحال پر، تو وڈھ مختلف تضادات، جنگوں اور جبر کے گھیرے میں ہے۔ ایک طرف سردار اختر مینگل تو دوسری جانب بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ شفیق الرحمن مینگل دونوں جنگ و جدل میں مبتلا ہیں۔ وڈھ میں اختر مینگل کی سرداری نظام قائم ہے جبکہ شفیق مینگل،اختر مینگل کے سرداری نظام کو ماننے سے انکاری ہیں، ان کی اطاعت اور پیروی نہیں کرتے۔ مینگل قبیلے کے یہ دونوں معتبرین ایک دوسرے کے مخالف جنگ کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
سردار اختر مینگل جن کا تعلق ہی ایک سیاسی خاندان سے ہے ان کے والد سردار عطااللّہ مینگل ایک عظیم بلوچ قوم پرست لیڈر بھی رہ چکے تھے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی جس موجودہ قیادت اختر مینگل کے ہاتھوں میں ہے، سردار عطاء اللہ مینگل اسی پارٹی کی بنیاد و وجود بھی سردار عطااللّہ مینگل نے رکھی تھی اور خود بھی اس پارٹی کے قائد رہ چکے تھے۔ حتٰی کہ اختر مینگل اور عطااللّہ مینگل بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں۔
دوسری سمت شفیق الرحمن مینگل جس کا تعلق بھی مینگل قبیلے سے ہے۔ تاریخی طور پر شفیق مینگل بلوچستان کے ڈیتھ اسکواڈز کی بھی سربراہی کرتے رہے ہیں۔ شفیق مینگل کے والد نصیر مینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور سابق وفاقی وزیر بھی تعینات ہوئے، شفیق مینگل جو کہ مسلح دفاع تنظیم کی قیادت کرتے رہے اور بعد میں انہوں نے حق نا توار کو تشکیل دیا۔
اختر مینگل اور شفیق مینگل کے درمیان تضاد کافی حد تک بڑھ چکی ہے جس کو قابو لانا بے حد مشکل سے مشکل تر نظر آتا ہے۔اختر مینگل اپنی سیاسی کارکنان کی اغواہ،ان کی لاشوں کا گِرنا،بلوچ نسل کشی کی ذمہ دار اور قتل و غارت اور خون ریزی میں شفیق مینگل کو قاتل و مجرم قرار دیتے ہیں جبکہ شفیق الرحمن مینگل اپنے ساتھیوں کے اغواہ کاری،اپنی ساتھیوں کے قتل میں اختر مینگل پر الزامات و بھتام لگاتے ہیں کہ ان پر جتنے بھی حملے کیے گئے سب کے پیچھے اختر مینگل کا ہی ہاتھ ہے۔اختر مینگل کا کہنا ہے کہ آج بھی شفیق مینگل دہشت گرد گروہ کی سرپرستی کر رہے ہیں، یہ اختر مینگل اور اس کے پارٹی کے باقی نمائندوں کو نشانہ بنانے کا ٹاسک دے رہا ہے۔ وہ کسی بھی وقت ان پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ایک طرف بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اختر مینگل نے اپنے ساتھیوں سمیت وڈھ کا گھیراؤ کیا ہے تو دوسری جانب بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ شفیق مینگل نے وڈھ کو اپنی طاقت سے گھیرا ہوا ہے۔لیکن ان سب میں مشکلات اگر کسی کو درپیش ہے تو وہ صرف عوام ہے نہ تو صرف وڈھ کے عوام بلکہ یہ مسئلہ پورے بلوچ علاقے یعنی پورے بلوچستان میں افراتفری پھیلا رہی ہے۔ یہاں تک اس افراتفری میں بہت سے لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانا اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ ایک ہندوں برادری سے تعلق رکھنے والا بتیس سالہ اشوک بھی ٹارکٹ کلنگ میں شہید ہوگئے اور ہندو آبادی کا کہنا ہے کہ اختر مینگل اور شفیق مینگل کی لڑاہی میں نہ تو صرف اکثریت میں بلوچ اور براہوہی مشکل سے دوچار ہے ان جیسے اکلیت میں رہنے والے بھی
قربانی کے بکرے بن گئے اور تحفظ سے محروم ہے۔
سردار اختر مینگل کا کہنا ہے تمام سیاسی ادارے اور خفیہ ادارے شفیق مینگل کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ ہر دم بلوچوں پر مشکلات اور مسائل کے پہاڑ توڑنا چاہتے ہیں۔ بلوچ کو زبردستی اغواہ کرنا، عقوبت خانوں میں بند کرنا،ان پر ظلم و جبر اور زیادتی کرکے ان کو ماؤراہے عدالت میں قتل کرنے میں یہی ملوث ہے۔اور اس لیے تاریخی دور میں شفیق مینگل نے عقوبت خانے اور جیل بنائے تا کہ انھی میں لوگوں کو مار پھیٹ کرے انہیں اذیتیں پہنچاہے اور خون ریزی کرے مگر شفیق مینگل ان سب سے انکاری ہے۔شفیق مینگل کہتے ہیں کہ اختر مینگل ان پر بے بنیاد الزام لگا رہے ہے کیونکہ کئی برسوں پہلے میں ان کے مقابلے میں انتخابات میں کھڑا ہوا اور اسی لیے مجھ پر بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کر رہا ہے، اور دوسری طرف سردار اختر مینگل کی سرداریت کو بھی شفیق مینگل سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اختر مینگل اور شفیق مینگل کے درمیان یہ جنگ اور تضاد ابھی کی نہیں ہے بلکہ ان کی دشمنی کئی سالوں سے چلتی آرہی ہے یہ اس وقت شفیق مینگل کے والد نصیر مینگل اور اختر مینگل کے والد عطااللّہ مینگل ایک دوسرے کے مخالف تھے اور انتخابات میں بھی ایک دوسرے کا آمنا سامنا کیا اور یہ دونوں ہر مسئلے کو اپنی غیرت کا مسئلہ سمجھتے تھے۔بجاہے یہ کہ اختر مینگل اور شفیق مینگل اس آگ کو پانی دے کر بجھائیں انہوں نے تو آگ کو اور بھی زیادہ ہوا دی۔
دوہزار پانچ کی دہاہی میں جب عطااللّہ مینگل کے گھر پر راکٹ داغے گئے تو اس کا ذمہ دار شفیق مینگل کو ٹہرایا گیا اور ساتھ ہی میں جب دو ہزار گیارہ میں شفیق مینگل کے گھر پر حملہ ہوا تو اس حملے کو عطااللّہ مینگل اور ان کے بیٹے جاوید مینگل کی سازش قرار دیاگیا۔
یہ تو ظاہر ہے اور پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے کہ شفیق مینگل نے دو ہزار چودہ میں 300 لاشیں خضدار کے علاقے توتک میں دفن کیے۔ کیا اب اس سے بھی انکار کیا جاسکتا ہے؟
اختر مینگل اور شفیق مینگل کے درمیان اپنے ذاتی اختلافات ہیں۔ ان کے درمیان معدنیات کے اوپر،ٹیکسس کے اوپر جنگ ہے جو قیمتی پتھر وڈھ کے پہاڑوں سے نکل رہے ہیں اختر مینگل اسے اپنی ملکیت سمجھتا ہے تو دوسری جانب شفیق مینگل اپنی ملکیت سمجھ بھیٹا ہے حکمران طبقات کی آپسی چپقلشوں سے عام بلوچ عوام کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
دوسری جانب سردار اختر مینگل وڈھ میں اپنا سرداری نظام قاہم کرنا چاہتا ہے مگر شفیق مینگل ان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے، اور اس عمل سے اختر مینگل کی سرداریت کو مزید خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ اس لیے نہیں شفیق مینگل سرداری نظام کے خلاف ہیں بلکہ وہ اختر مینگل کی ٹانگیں کھینچ کر سرداری گَدی پر کو فائز دیکھنا چاہتا ہے۔
دراصل سرداری نظام زاتی ملکیت کے آغاز سے وجود میں آگیا تھا اور اس نظام کو چلانے والے سردار خود کو باقی ماندہ عام عوام سے برتر سمجھتے ہیں اور سردار کی مکمل فیملی باقی دیگر لوگوں کی فیملی سے برتر سمجھی جاتی ہے، سردار اپنے قبیلے کے تمام تر سیاہ و سفید کے مالک بھی مانے جاتے ہیں، تاریخی مادیت کے مطابق ہر سماجی نظام اپنی دور یا مدت پوری کر کے کسی دوسرے نظام میں تبدیل ہو جاتا ہے اب چونکہ سرداری نظام کی مدت پوری ہوچکی ہے اب مزید اس نظام میں وہ صلاحیتیں وجود نہیں رکھتی جو وقتی طور پر ابھرنے والے سماجی تضادات کو مستقل بنیادوں پر حل کر سکیں اس کے بر عکس یہ نظام ازخود سماجی میکانزم کے لیے رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے، موجودہ وقت میں سرداری نظام سے تعلیم پر گہرے اثرات پڑ رہے ہیں، عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، سماجی مسائل جو کہ اپنی اساس میں سیاسی ہیں انہیں قبائلی مسئلے کرار دے کر جرگے کے ذریعے ان کو حل کرنے ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں ، عام عوام کی آزادی سلب کردی جا رہی ہے اور انہیں ان کے حق سے محروم کیا جارہاہے، انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جارہاہے۔
اس طرح سردار سے نواب،نواب سے وڈیرہ اسی طرح اور بھی لوگ حکومت کرنے نکل پڑے ہیں۔ موجودہ وقت میں سرداری نظام کی سفاکیت کی ایک جھلک ہمیں بارکھان میں نظر آئی کہ سردار عبدالرحمٰن کھیتران جس نے بارکھان کے مظلوموں پر ظلم کی انتہا کردی تھی، معصوم بچوں کو ان کی ماں سمیت اپنے نجی جیلوں میں قید کر کے رکھ دیا تھا اور امیرا بی بی جیسے نوجوان لڑکی کو بے رحمی سے قتل کردیا تھا، مگر اسے کون پوچھے گا؟ کیونکہ اب سردار اور سرکار ایک ہی سِکّے کے دو رُخ بنے ہوئے ہیں، ایک دن عدالت میں پیشی دو اور واپس اسی عُہدے کے مالک بن جاؤ سرداری نظام میں صرف عام عوام ہی کنویں میں گِرے گا، عوام کے ہی گردن کاٹے جائیں گے، اور عوام ہی کا سر اُڑایا جاہیگا پھر سے وہی قتل و غارت اور خونریزی، مسئلہ جو بھی ہو عوام ہی کو بی بسی کا سامنا کرنا پڑیگا، جب تک بلوچ سماج سے مکمل طور پر سرداریت کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا تب تک تو تو، میں میں والا سلسلہ بڑھتا ہی جائیگا۔
اختر مینگل اور شفیق مینگل دونوں ایک ہی چیز پر اڑے ہوئے ہیں۔اختر مینگل کہتا ہے کہ شفیق مینگل کو خفیہ اداروں کی سپورٹ حاصل ہے جبکہ شفیق مینگل کہتے ہے کے اختر مینگل کو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی حمایت حاصل ہے۔اس لیے جب 2018 کے جنرل الیکشن میں شفیق مینگل نے اختر مینگل کے مقابلے میں 1400 ووٹ جیتے مگر اختر مینگل کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی وجہ سے 2018 کے الیکشن میں جیت گئے، ان کے درمیان تضاد سیاست سے شروع ہوئی لیکن ابھی بدبختی سے اسے سیاسی شکل سے کاٹ کر قباہلی شکل میں ڈال دیا گیا ہے، مگر ہم علی الاعلان کہتے ہیں ہر مسئلہ چاہے اس کی نوعیت جو بھی ہو اپنی اساس میں وہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی بنیادوں پر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
دو ہزار بارہ کو فداہی شہید درویش نے ارباب کرم خان روڑ شفیق مینگل پر خودکش حملہ کیا جس میں شفیق مینگل کے 20 ساتھی جان بحق ہو گئے لیکن ان کی جان بچ گئی جس سے بلوچ سرمچاروں کے ساتھ ان کی دشمنی اور بھی بڑھ گئی اور اس کے بعد جب بی ایل اے نے ان کے چاچا قدوس مینگل پر حملہ کرکے انہیں مار دیا تو اس میں یہ اختر مینگل کو بھی شریک سمجھتے ہیں۔
شفیق مینگل یہ اقرار کرتے ہے کہ ان کے ساتھی 70 سالہ خدا بخش محمود زہی کے اغوا کاری میں بھی اختر مینگل کا ہاتھ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اختر مینگل کے ساتھی عبدالوحید بھی لاپتہ افراد میں شامل تھے اور اسی طرح یہ ایک دوسرے پر الزامات پہ الزامات لگاہے گئے اور آج بھی ان کی دشمنی وڈھ میں اسی سبب چل رہی ہے جس میں بلوچ قوم اور عوام کو زبردستی گھسیٹا جا رہا ہے، اور عوام کو مصیبتوں اور دلدل میں پنسھایا جا رہا ہے۔
آج سرفیس گراؤنڈ پر انقلابی ماس پولیٹیکل پارٹیز کی غیر موجودگی میں ہر مسئلہے قبائلی مسئلے کی شکل دیا جا رہا ہے، مگر اصل میں یہ تمام تر مسائل اپنی اساس میں سیاسی ہیں، اب عام عوام کو چاہئے کے تضادات کی نوعیت کو جانچ پرکھ کر انہیں سمجھنے کی کوشش کریں اور ان سماجی تضادات کو عوامی سیاسی مزاحمت کے زریعے حل کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔