سیف اللہ رودینی کو بازیاب کرکے ہمیں ہماری خوشیاں لوٹا دیں۔ ہمشیرہ

159

جبری گمشدگی کے شکار سوراب کے رہائشی سیف اللہ رودینی کی ہمشیرہ فرزانہ رودینی نے اپنے بھائی کی بحفاظت بازیابی کیلئے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر میرے بھائی کو بازیاب کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ صرف میرے بھائی کو لاپتہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہماری خوشیاں بھِہ لاپتہ کی گئی ہیں ہمارے جذبات کو کچل دیا گیا ہیں لاپتہ بھائی کی عدم موجودگی میں ہم اذیت اور عذاب میں زندگی گزار رہے ہیں بھائی کی جبری گمشدگی کا اذیت ناقابلِ بیان ہے ہم تکلیف میں ہیں مجھے میرا بھائی سیف اللہ واپس لوٹا دو۔

انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس سے اپیل کی ہے کہ میرے بھائی سیف اللہ رودینی کی بازیابی کے لئے آواز اٹھائیں ،بھائی کی طویل جبری گمشدگی سے زندگی مکمل طور پر بے معنی ہو کر رہ گئی ہے، خوشیاں اور خواہشات آنسوؤں و اذیت میں بدل گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل ہے کہ میرے بھائی کی بازیابی کیلئے ہماری مدد کریں اور اس کی بحفاظت بازیابی کے لئے آواز اٹھاکر موثر کردار ادا کریں۔

خیال رہے کہ سیف اللہ رودینی ولد داد خدا سوراب کے رہائشی اور محکمہ پولیس میں ملازم تھے 22 نومبر 2013 کو وہ گھر سے خضدار ڈیوٹی پر جارہے تھے انہیں خضدار اور سوراب کے درمیان زاوہ کے ایریا میں مسلح افراد زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔

مقامی پولیس اور لیویز نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کی تھی پھر لواحقین نے لاپتہ افراد کے کمیشن سے درخواست کی کہ سیف اللہ کی گمشدگی کا ایف آئی آر درج کیا جائے۔

تقریبا 8 سال بعد کمیشن کی ہدایات پر 11 مئی 2021 کو مقامی لیویز نے ایف آئی آر کی لیکن تاحال سیف اللہ رودینی کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔

سیف اللہ رودینی کی اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں سمیت دیگر بین الاقوامی ادارے بلوچستان جبری گمشدگیوں کی اس گھمبیر انسانی مسئلے کو مکمل نظر انداز کرچکے ہیں جس سے بلوچستان میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔