سمو و مست اور اُن کا وطن ۔ کوہ دل بلوچ

451

سمو و مست اور اُن کا وطن 

تحریر: کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آپ نے مست کو یاد کیا، مست کو سامنے لایا اور مست کی دیوانگی کو کتاب کے پنوں میں پرویا لیکن سمو آسمانی بجلی کی روشنی میں دکھائی دی اور پھر کبھی رسترانی پہاڑوں میں دکھی اُس کے بعد بالکل بھی نہیں، سمو وطن کا سمو ہمیشہ زہریلی سانپوں کے آسیب سے خود کو نکال نہیں پائی، فیوڈل سماج نے سمو کو اس قدر گھیر لیا کہ محض یہ دائرہ اُس کیلئے دستگیری لکیر بن گئی، لیکن سمو کب تک اس حالت میں رہتی؟ کب تک سمو خود کو مقید رکھتی؟ سمو کب تک جولان کے اذیتوں میں مبتلا رہتی؟ آخر سمو کو سامنے آنا تھا اور وہ آگئی اُس کے شعور و آگاہی نے زندانوں کو توڑ کر مسمار کردیا، سمو جنگ میں امن کا روپ ہے سمو جنگ چاہتی ہے مگر امن کیلئے سمو آگ بن کر ابھری اور دشمن پر بڑی شدت سے جا گری اس لئے کہ وطن کے پھولوں کو بوٹوں تلے روندا نہ جائے تاکہ میری وطن صدا پھولوں کی خوشبو سے مہکتی رہی، سُمعیہ سمو تب بنی جب موجودہ دور کا مست سیندک پروجیکٹ پر معمور سیکیورٹی اور چینی انجنیئرز کے قافلے پر برودوں سے بھری گاڑی کو ٹکرائی اور اُنہیں بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام ایک بہت بڑی دھماکے کی شکل میں پہچایا کہ یہ سمو کا وطن ہے اسے ہرگز میں اغیار کے ہاتھوں بے دردی سے لوٹنے نہیں دونگا وہ ریحان تھا سمو کا ریحان، یاسمین کا ریحان، اسلم کا ریحان، دھرتی کا مست، قوم کا مست اور ہمارا مست.

سمو امیر کا ارمان توتک کی شان اور بلوچستان کی محبوب بیٹی ہے، جہلاوان آج شاری کے مکران سے محو گفتگو ہے اپنی بیٹیوں پر دونوں نازاں ہیں مکران شاری کو بیچھ میں بٹھا کر چوغان کی کیفیت میں ہے اور جہلاوان سمو پر سجدہ ریز ہے، شعور و علم آگاہی سے لیس سمو کی کردار اور امیر کی جہد سے بے انتہا مخلصی و عاجزی نے بقول ایک زانتکار کہ ہم بلوچ قوم اور قومی تحریک امیر کے قرضدار ہیں آج سمو ہاں وہی توتک کا سمو جہاں کبھی امیر الملک سیاسی تبلیغ کرتا ہوا نظر آتا تھا پھر سے ہمیں اور تحریک کو مزید مقروض کردیا، سمو آج جند ندری کا راستہ کیوں اختیار نہ کرتی؟ سمو کے داغستان توتک میں سرکار و سردار حتیٰ کہ مُلاؤں کی کارستانیاں کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں، اجتماعی قبروں کی داستان، ملٹری آپریشنوں میں جلتے ہوئے گھروں کی کہانی، قلندرانی فیملی کا لاپتہ ہوجانا ایک دہائی سے زیادہ زندانون اور کالی کوٹڑیوں میں مقید ہو جانا، سمو اسی توتک کی محبوب بیٹی تھی جہاں خونی آپریشنوں میں سمو نے یحیٰ اور نعیم کے گولیوں سے چھلنی لاشیں دیکھی، سینکڑوں گھروں کو ویران ہوتے دیکھی اپنے ہی قبیلے کے سینکڑوں لوگوں کو بےگھر ہوتے دیکھا اُن کو مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور دیکھی، سمو ظلم کی وادی میں آنکھیں کھول دی شعور پائی آگاہی سے آشنا ہوئی وہ یہ راستہ نہ چنتی تو کیا کرتی؟ سمو نے امیر کا لاج رکھا ریحان سے سنگتی نبھائی، یاسمین کے رشتے کو عظیم کردی اور اسلم سے خوب نظریاتی وفاداری نبھائی.

مست نے سمو کے وطن پر سمجھوتہ نہیں کیا تو سمو اس وطن پر اس قوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ کو ٹوٹتا ہوا دیکھ کر کیسے خاموشی اختیار کرتی کیسے اپنے ضمیر کو چپ کراتی؟ سمو بھی نکلی اُس راہ پر جس پر اُسکا مست ریحان نکل گیا، جب سمو دشمن پر بارود بن کر گرتی ہے تو ایک سنگت آہ بھر کر پھر ایک حسین مُسکان کے ساتھ کہہ اُٹھتا ہیکہ “واہ.!! اینو ریحان نا برام ءِ” سمو اپنے دور کا ملکہ ہے سمو کا عمل قوم کے بقا کا ضامن ہے، سمو جب مزاحمت کی اصل معنی سے روشناس ہوتی ہے وہ فیمنیزم جیسے نظریات سے ہزار قدم آگے نکل جاتی ہے وہ ایسے نظریات کا خود کو پابند نہیں بناتی جو مساوات، رواداری، برابری کے نام پر دو جنسوں کے درمیان جنگ کی ماحول چھیڑتی ہے وہ ایسے فیمنیزم پر یقین نہیں رکھتی جن کی فنڈنگ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے طرف سے ہو سمو ایسے فیمنسٹوں کا حامی بالکل نہ تھی جو حقیقی فیمنیزم سے نابلد ہوں سمو ایسے فیمنسٹ نظریات کا بالکل پاسدار نہ تھی جو قومی آزادی، سیاسی، سماجی، معاشی اور لسانی جیسے حقیقی مسئلوں کو چھوڑ کر صرف جنسی اختلافات کے دائرے میں گھومتی ہوں، دنیا میں ایسے کئی نظریات جنما اس لئے گئے ہیں کہ تاکہ دنیا کے اندر مظلوم و ظالم کے درمیان فرق کی پہچان نہ ہو پائے کوئی اپنی تشخص و بقا کی جنگ نہ لڑے اپنی آزادی سے نابینا ہو سچائی سے اپاہچ اور حق کی آواز سے گنگے اور بہرے ہوں بدقسمتی سے پاکستان جیسے ملکوں میں نہ حقیقی سوشلزم کا چرچہ ہے نہ کہ حقیقی فیمنیزم کا کہیں شور و غوغا ہے جبکہ یہاں ہر فکر و نظریہ اپنا حقیقی چہرہ کھو دیا ہے جو روز بہ روز قومی تحریکوں کے آگے روکاٹیں کھڑی کرنے کے سوا اور کچھ نہیں.

سموؤں کے آزادی، اُن کی برابری اور اُن کے حق رائے دہی کے دعویٰ کرنے والے کس بنا پر یہ الفاظیں ادا کرتے ہیں کہ عورتوں کا استعمال بند کیا جائے سوال یہ پیدا ہوجاتا ہیکہ آپ کے ڈکشنری میں حق و حق رائے دہی، آزادی، مساوات ان سب کی معنیٰ کیا ہیں؟ عورت کیلئے آزادی مانگنے والے اُسے اپنے زندگی اور موت کے فیصلے سے کیوں روک رہی ہے؟ شعور شعور کے گن گانے والے حقیقت سے لرزاں کیوں ہیں؟ انسانی شعور و آگاہی کا تقاضا صرف جنسی اختلافات تک محدود نہیں ہیں انسانی آزادی کا سرچشمہ اور اس کی تشریح چار پنوں پر ختم نہیں ہوتی کسی جاہل، تنگ نظر، پدرسری کا بیمار زہن اور مرد راج کے خواب دیکھنے والا یا پھر صرف مادرسری کا گُن گانے والا ہی ایسے عمل پر سوال کھڑی کر دیتے ہیں جس عمل سے شاری گزری جس عمل کو سمو نے اپنایا، کون ایسی پاگل پن پر اتریگی؟ جو شعور و علم کا پیکر زانتکاری کے اعلیٰ درجے و مکام پر ہوں اور خود اپنی زندگی کا فیصلہ کرتی ہوں اپنی موت کو قوم کیلئے استعمار سے نجات سمجھتی ہو قوم و دھرتی کے تباہی کو جانتی ہو اپنے شناخت کو سرِ منہ باریک ٹوٹنے کے آخری مرحلوں میں دیکھ رہی ہوں، روزانہ سڑکوں پر ماں بہنوں اور بزرگوں کی تزلیل دیکھتی ہوں، ان کے آنسوؤں میں روز اپنے ضمیر کو دھو رہی ہوں، شہیدوں کے لہو سے ہر روز گھروں کو لعل دیکھ رہی ہوں، زندانوں میں سالوں سے پڑے بھائیوں کا درد محسوس کر رہی ہوں اپنے وطن سے اسے بےدخل کیا گیا ہو غلام بنایا گیا ہو، سونے چاندی اور وسائلوں سے مالا مال سرزمیں پر روز بچے ننگے اور بھوکے سوتے ہوں تو وہاں پاگل شاری اور سمو جیسی بہادر بیٹیاں ہی جنم لیتی ہیں جن کو بھوک و افلاس، قوم کی بزگی، وطن کی بےدردی سے لوٹ کھسوٹ، قومی آزادی کی جستجو اور شہیدوں کی مقصد نے اس قدر جنون بخشی ہے شعور و آگاہی بخشی ہے اور درد کی ایک طوفان نے ان کے باطن میں طلاطم سی حالت مچا رکھی ہیکہ وہ شاری بننے پر مجبور ہیں سمو بننے کیلئے تیار ہیں۔

بقول سُمعیہ فدائی کہ “یہ تو شروعات ہے” اور شروعات میں اتنی شدت ہے تو سوچو انتہا کیسے ہوگی بقول کماش کہ ڈرو اُس دن سے جب بلوچ مارنے نکلے گی اب تک تو مرنے نکل رہا ہے، سمو اسی شدت کا ایک حصہ ہے جس نے شاری کی نقشِ قدم اپنائی، اب تحریک میں بلوچ روایات کی پاسداری ہونی چاہیئے ہمیں اپنے اُن خیالات سے خود کو آزاد کرنا چاہیئے جس میں ہمیں گھسیٹا گیا ہے جس میں ہمیں کئی روایتوں کے نام پر تو کئی مزہب کے نام پر پابند کیا گیا ہے جہاں عورت کیلئے سماجی پابندیوں کے سوا کچھ نہیں جہاں عورت کیلئے آزادی گالی سمجھی جاتی ہے اب ہمیں آزادی مفہوم سے آشنا ہونا چاہیئے آزادی کی معنی و مطلب کو جاننا چاہیئے ہمیں نام نہاد فیمنیزم کے تشریحات و نظریات سے نکلنا چاہیئے ہمیں بحثیت بلوچ اپنے بلوچی روایات کے مطابق بانڑی کو پھر سے میدان جنگ میں آنے کی موقع فراہم کرنا ہوگا، وطن و راج ہم سے گُل بی بی کی مانگ کرتے ہیں، حانی کے بےبسی کو دور کرنا چاہتی ہے، ماہناز کے شاعری کیلئے محفل سجائی رکھی ہے، وطن کے بانڑیوں کو آگے آنا ہوگا، حانیوں کو شعور و آگاہی میں رہتے ہوئے قومی آزادی کی مانگ کرنی ہوگی، ماہنازوں کو عزمنہ شاعری پر مجبور کرنا ہوگا، گُل بی بیئوں کے ہاتھوں بندوق تھمانی ہوگی ورنہ ہمارا مزاق ہر روز اُڑایا جائگا ہر موقع پرست نظریات رکھنے والے ہم پر انگلی اُٹھاتے پھرنگے تاکہ اُن کا آقا ان سے منہ پھیر نہ لے ملٹی نیشنل و سرمایہ داری کے آشرباد پر چلنے والے این جی اوز کے اختلافات پر ہم کبھی بھی اپنے شاری کی قربانی گم ہونے نہیں دینگے بلکہ دنیا کے کسی بھی نظریات و مکاتب فکر رکھنے والوں کی تنقید سے ہم اپنا سمو کا کردار مدفون نہیں کرینگے یہی تو ہیں جو قوم، وطن اور تحریک کے درمیان آئینہ بن کر آتے ہیں کل شاری نے کئی چہرے سامنے لائے آج سُمعیہ نے ہزاروں ایسے چہرے سامنے لے آئے جن پر برسوں ہوئے پردے پڑے تھے.

سمو دنیا لاکھ کہے مگر آپ ہماری رہبر ہو، بلوچستان کی بہادر اور نڈر بیٹی ہو، شعور و علم سے آشنا قوم کی رہنما ہو، راہ دکھانے والی روشنی ہو، قوت فیصلہ اور حوصلہ بانٹنے والی سمو ہو، سمو آپ امیر کا فلسفہ ہو، توتک کی زرخیز مٹی کی خشبو ہو، جہلاوان کی مزاحمت اور سراوان کی عزت ہو، سمو آپ کے ہمت و حوصلہ سیاجی اور کوہ سلیمان سے بھی زیادہ اونچے ہیں، سمو آپ میں مشکے کی برداشت میں نے دیکھا، سمو آپ نے خضدار کے تاریخ کو نئی رنگ عطا کر دی، سمو آپ نے تربت کو مقروض کردیا، سمو ماوند آپ پر نازاں ہے، سمو کاہان بالاچ کی امید پھر سے کرنے لگی ہے، سمو آپ کے اس عمل نے ڈیرہ جات کو شعور بخشا ہے، یوسف عزیز مگسی کا جھل پھر سے آس لگانے کی ٹھان لی ہے، رخشان خوشی سے رو رو کر اپنے آنکھوں کو راسکوہ کے راکھ سے سرمہ کرکے ٹھنڈک محسوس کرنے لگی ہے، سمو آپ کے اس جرّات نے باتیل کو گوادر کے دفاع کا ہنر سکھا دیا ہے، سمو آج بحرِ بلوچ رقص میں ہے کہ اُس کے عشق میں سمو فدا ہوچکی ہے، سمو اب گڈانی اپنی خوبصورتی کبھی کھو نہیں سکتی، سمو آپ کے لہو کے مہک نے وڈھ کو شرمندہ کر دیا، سمو آپ کے توتک کو خون سے نہلانے والا آج اپنا منہ چھپانے کیلئے جگہ ڈھونڈ نہیں پا رہا، سمو آپ شعور ہو آپ رژن ہو آپ آگاہی ہو، سمو آپ نے مست کے سمو کو تاریخ کے پنوں میں اب حسین خوبصورت اور سنہری لفظوں میں زندہ کردی، سمو اب صرف گرج چمک آسمانی بجلی کی روشنی میں نہیں دکھے گی بلکہ سمو خود آسمانی بجلی بن کر دشمن پر گری اور گرتی رہیگی صدا گرتی رہیگی کبھی کسی سے چھپا نہیں ہوگا، سمو اب بلوچستان کے ہر پہاڑ میں مست کی طرح محو سفر ہوگی، سمو نوری نصیر خان کے قلات کا موسم بن کر ہر دور میں آئیگی، مہرگڑھ کی پہچان ہوگی، سمو چاکر کے قوم کا دستار ہوگا، سمو اکبر کا نہ جھکنے والا سر ہے، بابا مری کا سادگی اور گل خان نصیر کا شاعری ہوگا، سمو اب میرے الفاظیں کم پڑنے لگے آپ کا کردار نا ختم ہونے والا ہے آپ سمو ہو سمو کا جواب سمو خود ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔