سمعیہ؛ وطن کا محافظ
تحریر: مریم عبدالله
دی بلوچستان پوسٹ
“ہم اپنی جان بچانے کیلئے جہد کر رہے تھے
پر اس نے اپنی جان نچھاور کر دی ہم پہ
ہم تصور میں آزادی کی خوابیں بُن رہے تھے
پر اس نے حقیقت میں مُلک لٹا دی ہم پہ
یوں تو ہم سب خود کو بلوچ کہتے ہیں
پر اس نے اپنا حق ادا کرکے جان لٹا دی ہم پہ”
سمعیہ قلندرانی واحد نڈر فدائی نہیں، اس سے پہلے بھی بہت سے جانباز سپاہیوں نے اسلم بلوچ کا کارواں آگے بڑھاتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلتے آرہے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ کوئی بھی قوم تب تک آزادی اور ترقی نہیں پاسکتی جب تک کہ اس جنگ اور جہد میں کسی عورت کا ہاتھ اور ساتھ نہ ہو۔ اسلم بلوچ کے فدائی گروپ میں شامل پہلی عورت شاری بلوچ جس نے اپنا سب کچھ قربان کر کے فدائی حملے میں اپنا نام بلوچستان کے تاریخ کے پنوں میں رقم کردی اُس کی اِس عظیم قربانی ہم سب پر قرض بن کے رہ گیا۔ لیکن ہم ہی میں سے بلوچستان کی ایک اور بیٹی سمعیہ قلندرانی نے اپنا یہ قرض بخوبی اتار کر شاری بلوچ کی جہد کو آگے بڑھایا اور دشمن کو ایک بار پھر ایک بلوچ شیرنی نے للکار کر یہ ثابت کر دیا کہ بلوچ اپنے ملک اور اپنے حق سے دستبردار نہیں ہونگے بلکہ اپنے آخری سانس تک ظالم سے لڑتے رہیں گے۔
سمعیہ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہر کوئی اُس کے اوپر بڑی بڑی تحریریں لکھنے لگا، اس کی بہادری کی مثالیں دینے لگا اس کی محب الوطنی کی داستانیں سنانے لگا تو وہیں دوسری طرف کسی نے اسے دہشتگرد اور ملک کے حالات کو مزید بگاڑنے کا زمہ دار قرار دے دیا۔ کہتے ہیں کہ جس پر گزرتی ہے بس وہی جان سکتی ہے اور یہ بلکل سچ ہے، ہم دور سے بیٹھ کر ہر کسی پر تنقید کر سکتے ہیں یا اس کی واہ واہیں کر سکتے ہیں لیکن اس کی جگہ خود کو رکھ کر کبھی اسے محسوس نہیں کر سکتے، شاری اور سمیہ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے اردگرد لوگوں کو اغوا ہوتے ہوئے دیکھا، اُنکی مسخ شدہ لاشیں دیکھیں، ماں بہنوں کو اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر ٹھوکریں کھاتے دیکھا اور نہ جانے اس غلامی کے طویل عرصے میں کتنوں کو مختلف اذیتوں سے گزرتے دیکھا ایسے میں کوئی با ضمیر شخص ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تماشائی کبھی نہیں بن سکتا۔ یہ جنگ مظلوم بلوچوں پر بزور طاقت مسلط کی گئی ہے اور آگے سے کوئی امداد نہ پاتے ہوئے اب بلوچوں نے خود دشمن پر ٹوٹ پڑنے کی ٹھان لی ہے۔
آج سے کئی سال پہلے بلوچستان کے چھوٹے سے گاؤں توتک میں دشمنوں کا قہر برسا، اُن لوگوں میں سے ایک خاندان سمیہ کی بھی تھی۔ سمیہ نے اپنی کم عمری میں اپنوں کی لاشیں اپنے سامنے پائی اور نہ جانے کتنوں کو اغواء ہوتے ہوئے دیکھا جن کا انتظار سمیہ نے آخری دم تک کیا۔ اس کی خاندان بلوچ ہونے کی سزا تو کاٹ رہی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے اک بہادر، اک زمین زادہ کا ساتھ اور محبت بھی حوصلہ دے رہا تھا۔ ریحان نے خود جو راستہ اپنے لیے اختیار کیا وہ بلوچ قوم کی خوشحالی اور اُن کو ایک آزاد اور پُر امن ملک دینے کیلئے تھا۔ اور اُسی راستے پر گامزن سمیہ نے بھی یہی کردار اپنایا، شاید یہ سوچ کر کہ اس دنیا میں دونوں کا ساتھ ممکن نہ ہو سکا لیکن مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے موت کو گلے لگا کر اُس دنیا میں ایک ہو سکتے ہیں۔
سمیہ یا اُس کے جیسے جتنے بھی فدائیوں نے اپنا لہو بہا کر اپنے قوم کی حفاظت کی ہے اُنکے بارے میں جتنا بھی لکھو وہ کم ہی پڑ جائے گا کیونکہ اپنی ذاتی زندگی کو بُلا کر، اپنی خواہشات کو دفنا کر، اپنے پیاروں کو چھوڑ کر خود اپنی موت کو گلے لگانا کوئی آسان کام نہیں بلکہ اس کیلئے اک مضبوط جذبہ اور اپنے قوم اور ملک کیلئے عشق کی انتہا چاہیے ہوتا ہے جو کہ ہم جیسے منافقوں کی بس کی بات نہیں۔ ہم صرف تماشائی بن کر اپنے بہادر بہن بھائیوں پر یا تو تنقید کرتے ہیں یا دو تین دن اُن کو سراہنے کے بعد انہیں بھول جاتے ہیں۔ لیکن ہم ہی میں سے کچھ ایسے وطن پرست لوگ موجود ہیں جو اپنے قوم کی بقا اور اپنے مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
شاری، سمعیہ، ریحان، سربلند، آفتاب، استال، شھداد، احسان اور نہ جانے کتنے نوجوانوں کی لہو اس سرزمین پر بہہ کر ہمیں چھین کی نیند فراہم ہوتی آ رہی ہے۔ اسلم بلوچ کا کارواں اور دیگر آزادی پسند جہد کاروں نے اب اپنا راستہ آزادی کیلئے چُن لیا ہے اور اب اُنکی طاقت دوبالا ہو گئی ہے کیونکہ اُنکی بہنیں شانہ بہ شانہ اُنکا ساتھ دے رہے ہیں۔ اور وہ دن دور نہیں جب بلوچ خود کی زمین پر امن و سکون کی زندگی گزاریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔