سردار اختر مینگل کا موازانہ شفیق سے نہیں ۔ بیبرگ بلوچ

585

سردار اختر مینگل کا موازانہ شفیق سے نہیں

تحریر: بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہمیں سردار اخترجان مینگل کی سیاست سے نہیں البتہ سرداریت سے شدید اختلافات ہے اسکی وجہ یہی ہے سردار جو کوئی بھی ہو وہ استحصالی طبقے میں شمار ہوتاہے۔ چاہے بلوچوں میں جو بھی سردار رہا ہے بشمول نواب خیر بخش مری ، شہید نواب اکبر خان بگٹی ، سردارعطااللہ خان مینگل، میر غوث خان بزنجو ان میں سرداری ،نوابی ، میری متعبری کا جو پیدائشی ، جبلی ، جرثومہ ہے وہ تادم ِ مرگ زندہ رہا ہے۔ اگر انہوں نے کسی اور شہر یا علاقے میں اپنا یہ سرداری نوابی والا رویہ آشکار نہیں کی ہے اسکا مظاہرہ نہ کیا ہو( اپنے قائم کردہ سیاسی پارٹیوں میں انہوں نے سرداری اور نوابی بخوبی برقرار رکھی )

لیکن اپنے علاقوں میں انکا رویہ وہی رہا ہے جو ایک سردار کا عموماً ہوتا ہے بھلے یہ پڑھے لکھے دانشور سردار یا نواب تھے یا ابھی انکی نسل سردار اختر جان مینگل اور دیگر کی شکل میں زندہ ہے ( اللہ پاک انہیں لمبی عمر عطا کرے ) لیکن انہوں نے اپنے لوگوں کی بنیادی حقوق کسی نہ کسی طریقے سے سلب ضرور کی ہے۔ واضح ثبوت کے لئے کوئی انکے سرداریت اور بادشاہت کے زیر تسلط علاقوں ، “وڈھ، نال ، کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ” کا ایک بار وزٹ کرے وہاں کے رہنے والے لوگوں کی حالت ِ زار، انکی صحت ، انکی تعلیم انکی سماجی زندگی ،اُٹھنے بیٹھنے ، بات چیت کرنے کا طور طریقہ ، انکی معیشت ، روزگار، رسومات ِ زندگی ( شادی بیاہ ، فوتگی ) وغیرہ کے موقع پرشمولیت کے دوران کھاتے پیتے وقت یا سردار کی موجودگی میں انکی بے بسانہ ، غلامانہ طرزِ عمل ، باڈی لینگوئج اور گفتگو کا بغور جائزہ لے تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ان سرداروں نوابوں کی حقیقت کیا ہے۔

دوسرا مشاہدہ ان سرداروں کی زیرتسلط یا زیر سرداریت علاقوں کی سماجی ، تعلیمی ، شعوری ، فکری ،معاشی ، سیاسی ، نفسیاتی ، ثقافتی ترقی و تبدیلی کا موازنہ “مکران ” سے کریں تو ایک بہتر اور واضح نتیجہ سامنے آئے گا کیونکہ مکران میں کوئی سرداری نظام اس طرح سے نہیں جو جھالاوان ، ساروان ، کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، بارکھان ، لسبیلہ ، جھل مگسی ، بولان ،ڈھاڈر، سنی شوران، نصیر آباد، جعفرآباد میں ہے البتہ مکران بھی بلوچ قبائلی علاقہ ہے یہاں پر بھی وہی بلوچ کوڈ رائج ہے جو دوسرے بلوچ علاقوں میں ہے ۔ لیکن مکران میں سرداریت نہیں تو انکی سماجی ، شعوری حالت اُن علاقوں سے جدا ہے کہ بلوچ مسلح مزاحمتی تحریک اور بلوچ اوپن سرفیس سیاسی تحریک کو بھی مکران سے لیڈنگ رول ملی ہے بلوچوں کی موجودہ مزاحمتی تحریک کا سورج یہاں سے طلوع ہوکر دوسری تمام تر بلوچستان میں جگمگا اُٹھی ہے چائے وہ خواتین کی شکل میں ہو یا نوجوانوں اور مرد حضرات کی شکل میں ہے مکران میں تعلیمی صورتحال تعلیمی اداروں کی صورتحال جھالوان اور ساراوان رخشان سے بلکل الگ اور بہتر ہے یہ اور بحث ہے کہ سرکار یہاں پر تعلیمی اداروں کو کس قدر بنیادی ضروریات یا سہولیات فراہم کررہی ہے البتہ مکران کے لوگ انتہائی بدترین معاشی حالات میں بھی پڑھ رہے ہیں تعلیمی میدان میں بڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں پر کسی بھی سردار کی جانب سے ذہنی ترقی کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں جو جھالاوان ، ساروان ہے تھوڑی بہت رخشان میں ہے ۔ واضح ہو کہ رخشان کی صورتحال قدرِ مختلف ہے یہاں پر اُسطرح کی مضبوط سرداری نظام نہیں جو دیگرعلاقوں میں ہے ۔ جس طرح کی بدترین صورتحال ، وڈھ ، نال ، بشمول جھالاوان کے دیگر علاقوں پر دوسری جانب کوہلو، بارکھان ، ڈیرہ بگٹی میں ہے ۔ ایک اور بات کی وضاحت یہاں پر لازمی سمجتھا ہوں کہ جو ریاستی بیانیہ بلوچ سرداروں کے حوالے سے ہمیشہ بیان ہوتی ہے کہ جی بلوچ سردار ترقی مخالف ہے اس ریاستی بیانیہ کو میں تسلیم نہیں کرتا بلوچ سرداروں نے اپنے علاقوں کو دانستہ پسماندہ رکھا ہے لیکن دوسرے علاقوں میں ان میں سے کسی نے بھی ترقی کی مخالفت نہیں کی نہ ہی برسرِ اقتدار رہ کر نہ ہی سیاست سے الگ تھلگ ہوکر۔

“ان سرداروں میں نواب خیر بخش مری پاکستانی تعلیم کے لئےاپنا ایک الگ فلسفہ ہے اسی لئے انہوں نے ریاستی تعلیم کی مخالفت کسی حد تک کی ہے یہ ایک الگ بحث ہے جسکا کالونیلزم کی تناظر میں اپنا ایک بیک گراونڈ ہے کہ ریاستی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا چائیے یا نہیں ۔

نواب خیربخش مری نے اگر ریاستی تعلیم کی مخالفت کی بھی ہے تو اسکے لئے انہوں نے متبادل اسکولنگ سسٹم اور لٹریچر بھی فراہم کیا۔ لٹ خانہ تحریک اس اسکولنگ سسٹم کی ابتداء تھی پھر حق توار سرکل جو کہ مختلف ناموں اور اشکال میں اب بھی موجود ہے کئی پر انڈر گراونڈ تو کئی پر اوپن اسکولنگ سسٹم چل رہی ہے ”

کیونکہ درج بالا نواب اور سرداروں نے بلوچ سیاست ، بلوچ تحریک میں اپنا ایک اہم کردار ادا کیا ہے، انہوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے قربانیاں دی ہے ۔ انکی نسلوں ، بچوں آتکہ خواتین نے بھی قربانیاں دی ہے انہوں نے قید وبند کی سزائیں کاٹی ہے ، مشقت کی ہے خوار ہوئیں ہیں اس لئے ہم ان معزیزین کا موازانہ قطاً شفیق جیسے خونخوار جانور سے نہیں کرینگے ۔ کیونکہ شفیق ایک انتہائی الگ کیس ہے اُسکی سزا و جزا کا فیصلہ بلوچوں کی اُس حقیقی عدالت میں ہونی ہے جو حقیقتاً بلوچ قوم کی تشخص ، تحریک ِ جہد آزادی ، راجی تاریخ کے وارث و والی اور سپاہی ہے ۔ جنکو شفیق جیسے جانور نے محظ چند پیسوں اور مراعات ، شہرت کی خاطر حد درجہ نقصانات دی ہے انکے بے گناہ ،معصوم بچوں ، نوجوانوں، خواتین ، بوڑھے بزرگوں کو بیدردی سے شہید کیا ہیں اپنے قائم کردہ عقوبت خانوں میں بدترین سزائیں دی ہے ۔ بہت سے لاپتہ بلوچ ابھی بھی انکی عقوبت خانوں میں موجود ہونگے۔

اسکی واضح مثال گذشتہ ادوار2014ء میں ” توتک ، خضدار” شفیق کی قائم کردہ عقوبت خانے کے قریب اجتماعی قبر سے بلوچ لاپتہ نوجوانوں کی دوسو سے زائد لاشوں کی ہے۔ اسی طرح شفیق نے سردار اختر جان مینگل کی حمایت یافتہ بے شمارمعصوم لوگوں اور پارٹی کارندوں / ممبران کو بھی ٹارگٹ کلنگ میں مارا ہے۔

لیکن میرا سوال سردار اخترجان مینگل صاحب ، بشمول بلوچستان نیشنل پارٹی سے یہ ہے کہ انہیں اب” توتک واقع ، اجتماعی قبر اور شفیق کی بربریت کیسے یاد آگئی ؟

سوال یہ ہے کہ کیا وڈھ میں سماجی ، تعلیمی ،شعوری پسماندگی کا ذمہ دار سرداراخترجان مینگل نہیں ؟

کیا سردار اخترجان مینگل نے اپنے لوگوں کی استحصال نہیں کی ہے ؟

کیا اسطرح کی پیہ جام ہڑتالوں سے شفیق پر کچھ دباو یا اثربھی پڑسکتا ہے ؟

یا مفت میں اپنے لوگوں کو ہی خواری ، زحمت وذلت میں ڈالنے کے لئے اسطرح کے روایتی احتجاج ہوتے رہنگے ؟

کیا موجودہ وڈھ صورتحال واقعی نظریاتی اورسیاسی ہے ؟

کیا شفیق اور سردار اختر جان مینگل نظریاتی بنیادوں پر مسلح مورچہ بند ہے ؟

کیا شفیق کی طرح سرداراخترجان مینگل کی نجی جیل انکے زیر تسلط علاقوں میں نہیں؟

سوال یہ کہ سردار اختر جان مینگل بشمول بی این پی اپنی اور شفیق کی اس مسلے کو اَنا مسلہ بنا کر بلوچستان میں پہیہ جام کرکے تمام شاہراوں کو بند کرتا ہے اسی طرح کے احتجاج ، مظاہرے ، دھرنے انہوں نے مسنگ پرسنز کے لئے کیوں نہیں کی ( اسکے جواب میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے سردار اختر جان نے پارلیمنٹ میں مسنگ پرسنز کے لئے موئثر آواز اُٹھائی اور عمران خان دور میں کچھ مسنگ پرسنز انکے کہنے پر بازیاب بھی ہوئے ، یہ تو یہ انکا فرض اور ذمہ داری ہے ) عمران خان حکومت کے بعد اُن 6 نکات کا کیا بنا ؟

کیا شہباز شریف میں سُرخاب کے پر لگے تھے جو سردار ان پنجابیوں کو صرف دو وزیر مملکت کی خاطر سینے سے لگائے رکھا ہے جن پنجابیوں کے یہاں ( صوبہ ِ پنجاب ) انکے والد محترم سردار عطااللہ خان مینگل تادم مرگ نہیں گئے کہ پنجابی ایک نمبر کے موقع پرست اور بے غیرت ہے ۔

کیا سردار اختر جان مینگل صاحب نے شہبازشریف کے ساتھ ان 6 نکات کو اُسی طرح قابل ِ زکر اور پہلی ترجیح پر رکھا ؟

میرے خیال میں قطاً نہیں ۔

اب بھی کچھ وقت ہے سردار اخترجان مینگل وڈھ سے نکل کر بلوچستان کی سوچے اُن ماں ، باپ ، بہنوں ، بیٹیوں ، بیواوں ، بھائیوں کا سوچے جنکے لخت ِ جگر سالوں سے لاپتہ ہے جو سالوں سے ماماقدیر کے ساتھ مسنگ پرسنز کیمپ میں بیٹھے ہوئیں کیا سردار اخترجان مینگل ایک ہفتے کے لئے ماما قدیر کی کیمپ میں بشمول بی این پی بیٹھنے کا اعلان کرسکتے ہیں ؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔