زینیپ کناسی سے لے کر شاری اور سمعیہ بلوچ تک ۔ زمین زھگ

780

زینیپ کناسی سے لے کر شاری اور سمعیہ بلوچ تک

تحریر: زمین زھگ
دی بلوچستان پوسٹ

انسانی تاریخ و ظلم کے خلاف ہونے والے جد و جہد کی تحریکوں میں فدائی حملوں کو ایک موثر ہتھیار کے ساتھ ساتھ شعوری، زمہ دارانہ اور جرت مندانہ فیصلے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ حالیہ بلوچ قومی تحریک میں فدائی “جند ندری” اور بلخصوص اس میں بلوچ عورتوں کو شامل کرنا ایک موثر ہتھیار کے ساتھ ایک نئی اور پر اثر حکمت عملی سمیت ایک بہترین پیش رفت ہے، جس نے بلوچ سماج میں نوآبادیاتی بیانیہ و قدامت پرستی کی بنیادوں پر گڑھی اس نظریے کو جس نے بلوچ عورت کو اس کے جنس کے بنیاد پر کمتر و محدود بنا دیا تھا اس کا بھرپور انداز میں ردعملی جواب دیا ہے، جو جنگ کی شکل میں اس سماج کی ترقی اور وقار کی جیتی جاگتی تصویر ہے، یہ حکمت عملی صنفی بنیادوں پر تقسیم و تفریق کی مخالفت میں اس جنگ کا اظہار ہے جسے ہر حوالے سے قربانی کے عظیم مرتبے و جزبے کی فراوانی کرتے ہوئے قوموں کی ترقی کا ضامن سمجھا گیا ہے۔

“دشمن ہمارے خلاف مکمل جنگ لڑ رہا ہے۔ ہمارا جواب یہ ہونا چاہیے کہ ہماری آزادی کی جدوجہد مزاحمتی ہو۔ یہ رضاکارانہ موت جیسے اقدامات کو ایک ناگزیر ضرورت بنادیتا ہے۔ اپنے جسم کے بم باندھ کے میں سامراج کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنا چاہتی ہوں، جو خواتین کو غلام بناتی ہے اور یہ میرے غصے کا اظہار اور کردوں کی مزاحمت کی علامت کے طور پر جانا جائے گا۔ میں اپنی زندگی سے کہیں زیادہ حصہ ڈالنے کی امید کرتا ہوں۔ بعض حالات میں یہ ایک ایسا حربہ ہے جو دشمن کو شدید متاثر کرنے کے ساتھ ہمارے اپنے لوگوں کے حوصلے بلند کرے گا”۔ یہ فدائی زینیپ کیناسی عرف زیلان کا آخری پیغام تھا۔

زیلان، جنہیں کردستان ورکرز پارٹی (پی پی کے) کا پہلا خاتون فدائی سمجھا جاتا ہے اور کرد قوم نے انہیں دیوی جیسی عظیم رتبہ دیا۔ وہ 30 جون 1996 کو ترکی کے مشرقی شہر درسیم میں ترک فوجی پریڈ میں داخل ہوئیں اور اپنے جسم سے منسلک دھماکہ خیز بیلٹ کو دھماکے سے اڑا دیا۔ تب سے یہ نام “زیلان” لاکھوں کردوں کے لئے مزاحمت کی ایک عظیم علامت رہا ہے، جس نے وقار، سربلندی اور کرد سرزمین پر غیروں کی یلغار کے خلاف مزاحمت کی آواز بلند کی۔

انہوں نے مالتیہ کی انون یونیورسٹی سے سوشل سائنسز کی ڈگری حاصل کی تھی اور سرکاری اسپتال میں ایکسرے ٹیکنیشن کے طور پر کام کیا تھا۔ وہ شادی شدہ تھی اور جب اس نے فدائی حملہ کیا تو اس کا شوہر ترکی کی قید میں تھا۔

اپنے مادر وطن اور قوم کے لیے زیلان کی قربانی ہزاروں کردوں کے لیے فخر کی علامت کے طور مقبول ہوا ان کی اس عمل نے کُرد تحریک سمیت رجعت پسندی کے دلدل میں پھنسے ہزاروں بلکہ لاکھوں مظلوموں کو ایک حقیقت سے روشناس کرایا، مزاحمت کی حقیقت۔۔۔ جو تمام تفاریق کو بالائے طاق رکھ کر جبر کے خلاف ایک موثر جواب ہے۔ اس کے بعد 25 اکتوبر 1996 ء کو سترہ سالہ دوسری سب سے کم عمر خاتون فدائی لیلا کپلان نے ترک فوج پر حملہ کیا جس کے چار دن بعد ایک اور خاتون گیئر اوٹس عرف برمل نے ایک اور فدائی حملہ کیا۔

گیئر اوٹس عرف برمل فدائی کے اس اقدام کو زیادہ تر ترک ملیشیا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے اپنے بھتیجے اور بھائی کا بدلہ سمجھا جاتا تھا، تاہم اس کا برمل کے اس عمل سے بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنی قوم ، مادر وطن اور مقصد سے گہری محبت میں اس عمل کو سر انجام دیا۔

اسی طرح حال ہی میں بلوچستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر تربت میں فدائی سمعیہ کی جانب سے کئے گئے فدائی حملے کو کچھ حلقوں کی طرف سے ان کے رشتہ داروں پر مظالم کے بدلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جنہیں پاکستانی فورسز نے جبری گمشدگیوں کا شکار اور قتل کر دیا تھا۔ میری رائے میں اس طرح کے دعوے فدائین کے شعور، محبت اور اپنے دشمن کے خلاف اس کی نفرت کی توہین کے سوا کچھ نہیں۔ اجتماعی قبریں، جبری گمشدگیاں یا فدائی سمعیہ بلوچ کے رشتہ داروں کی مسخ شدہ ملی لاشیں ان کے شعور کا چھوٹا سا حصہ ہو سکتی ہیں لیکن ان کے فیصلے کے پیچھے کبھی بھی مکمل وجہ نہیں ہو سکتی۔

فدائی شاری ہر حوالے سے ایک باشعور اور باہمت بلوچ تھیں، جنہوں نے کراچی میں 26 اپریل 2022 کو چینی سرمایہ داروں کے قافلے کو فدائی حملے سے نشانہ بنایا۔ انہیں پہلے بلوچ خاتون فدائی کا اعزاز حاصل ہے۔ نہ ہی شاری بلوچ کے رشتہ داروں میں سے کوئی لاپتہ تھا اور نہ ہی کسی کو شہید کیا گیا تھا – جس کے اس عمل نے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ایک نئی بلندی پر پہنچا دیا۔ یہ وہ عمل ہیں جو تاریخی دارہ بدل دینگے ـ

فدائی زیلان نے نیٹو اتحادی ملک ترکی پر حملہ کیا تھا جس نے 17 اکتوبر 1951 کو نیٹو کی رکنیت کے کاغزات پر دستخط کیے تھے۔ درحقیقت کرد کارکن اور ان کے دوست ہر 30 جون کو دنیا بھر میں خاص طور پر جرمنی میں زیلان کو یاد کرتے ہیں اور اس کا اظہار پوری قوم کے لئے فخر کے لمحے کے طور پر ہوتا ہے اور کرد آزادی کی جدوجہد کی یادوں سے ان کا نام کبھی فراموش نہیں ہونے دیتے۔

فدائی ریحان بلوچ اور نہ ہی فدائی سمیہ بلوچ نے نیٹو اتحادی ملک پر فدائی حملہ کیا لیکن مثال کے طور پر کچھ بلوچ تارکین وطن، نہ پختہ لوگ، مزاحمتی تحریک سے دور گروہ، وغیرہ ہمارے قومی ہیروز کی قربانیوں کا مزاق اڑاتے ہیں۔ اور اس میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے بین الاقوامی جنگی قوانین کا نام استعمال کرکے ان کی بے عزتی کرتی ہیں۔

نہ تو فدائی زیلان اور نہ ہی “جنوب کی دلہن” صنعاء مہدی اور نہ ہی فدائی شاری، یہاں تک کہ سمعیہ بلوچ سمیت وہ لوگ جنہوں نے اس راستے کا انتخاب وہ پاگل نہیں تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا شعور، اخلاق اور بلند حوصلے ہماری سوچ، ہمارے شعور اور ہمارے علم سے اتنے بلند ہیں کہ اگر ہم صدیاں بیٹھ کر اسے قلمبند کرنے کی کوشش کریں تب بھی اس عظمت اور سچائی کی اس لگن کو مکمل بیان نہیں کر سکتے جس کی بنیاد پر ان لوگوں نے اس پرکٹھن، تکلیف دہ اور مشکل راستے کا انتخاب کیا۔ وہ لوگ جو اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں یہاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں، اس سے زیادہ قربانی ہمیں دینی ہے۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ عام لوگ نہیں ہو سکتے جو چھوٹی چھوٹی انفرادی خواہشات، ضروریات اور تمناؤں کے لیے زندہ ہیں۔ جو لوگ ایسے واقعات کو غصہ، انتقام اور جذباتی سے جوڑتے ہیں دراصل وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتے ہیں، اپنے بے عملی کو اسی بنیاد پر جواز فراہم کرتے اور اپنے مہم جوئی میں ترقی یافتہ قوموں کے نظریات کو اپنا کر انہیں بلوچستان جیسے محکوم سرزمین پر اس کا اطلاق کر کے اس جعلی علم کو پختہ شعور سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔

عظیم کرد شاعر احمد ژانی نے ایک بار کہا تھا: “اگر ہمارے پاس ایک ایماندار اور قابل احترام رہنما ہوتا تو ہم کبھی بھی ترکوں، عربوں اور فارسیوں کے غلام نہ ہوتے۔ ایک ایسی قوم جس کے ارکان ہمیشہ صرف اپنے انفرادی مفاد میں کام کرتے ہیں، یا خاندان یا قبیلے کے لوگوں میں اور ہمیشہ جعلی رہنماؤں کی حکمرانی میں رہتے ہیں، وہ طویل عرصے سے لعنت کا شکار ہیں۔

بلوچ جند ندری اس وقت بہت بڑی تعداد میں موجود اور اپنی باری کے انتظار میں ہیں، نہ جنّت کی لالچ، نہ کوئی زاتی خواہش۔۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہ لوگ ایک انسان کے طور پر منزل و مقصد کو بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا آخری پل طے کرتے ہیں، اور بلا جھجک اسی فیصلے پر مضبوطی سے کھڑے ہو کر موت کو باخوشی گلے لگا لیتے ہیں۔ یہ لوگ مرنے کے لیے نہیں بلکہ مقصد کے لیے مرتے ہیں، عام فہم میں پاگل وہ ہوتا ہے جو سوچنے سے قاصر ہو، جو چیزوں کو ترتیب وار انداز میں نہ رکھ سکتا ہو، جو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو اور یہ لوگ تاریخی عمل کو فہم میں لا کر، غلامی اور اسکے برخلاف آزادی کے عظیم فلسفے کو عملی طور پر جان کر اس تاریخی عمل میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ میں اِن کو کبھی پاگل نہیں سمجھ سکتا بلکہ اُن کو سمجھتا ہوں جو اس عمل کی عظمت سے ناواقف اپنے اذہان کو بے ربط و بے واسطے ترقی پسندی کے اقدار؛ جن کا اطلاق ان پر ہوتا ہی نہیں کو بنیاد بنا کر اس تاریخی عمل سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔