حساس قومی سفیر
تحریر: میار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی تحریک کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو ماضی میں آپ کو عالمی سطح پر ظاہری طور کوئی سفیر یا کسی جماعت کا براہ راست نمائندہ مقرر ہوتا نظر نہیں آتا، بلوچ قوم کے خیرخواہ، ہمدرد، سیاسی ؤ سماجی کارکنان نظریاتی طور پر بلوچ جدوجہد اور تحریک سے وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کبھی کوئی احتجاج کرتے تو کبھی کوئی سیمینار یا کانفرنس کرتے، یا پھر بلوچ کلچرل اور میوزکل نائیٹس کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے قوم اور سرزمین سے جُڑت اور محبت کا ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ اپنی قومی ہم آہنگی کو زندہ رکھتے۔
موجودہ بلوچ تحریک ماضی کی تحریکوں سے اس لئے بھی منفرد ہے کہ اس تحریک نے نہ صرف بلوچستان میں سیاسی اور مزاحمتی جنگ کو ایک نئی جہت بخشی ہے، بلکہ اس تحریک نے بیرونی دنیا کو اپنی واضح پیغام پہنچانے کی خاطر باقائدہ طور پر تنظیمی اور جماعتی سطحوں پر جدوجہد کی بنیاد رکھی۔ عالمی سطح پر مختلف بلوچ جماعتوں کے کارکنان ؤ لیڈران بلوچ قومی تحریک کی نمائندگی کرنے کی خاطر روانہ کئے گئے۔ چونکہ یہ پہلا تجربہ تھا بلوچوں نے اس سے قبل ڈپلومیسی یا عالمی سیاست کو اس قدر قریب سے نہیں دیکھا تھا تو اس فیلڈ کو سمجھنے اور پھر اپنی سیاست کو توانا کرنے کی خاطر کافی وقت لیا گیا۔
اس دورانیے میں کافی سفارتکار، کافی نمائندگان، کافی لیڈران نے اپنی سیاست کو انسانی حقوق یا صحافت سے منسوب کرتے ہوئے حقیقی بلوچ سے دوری اختیار کرتے ہوئے، بنیادی بلوچ قومی سوال کے بجائے غیر اہم اور ایسے مسائل کو سامنے لانا شروع کردیا جنہیں درحقیقت بنیادی قومی سوال کے حل کئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں، البتہ یہ نعرے اور سوالات خود فریب اور گمراہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں کنفیوژن پیدا کرنے کا سبب بھی بنتے جار ہے تھے۔
عالمی سطح پر سفارتکاری کے حوالے سے بلوچ نیشنل موومنٹ، بی آر پی، بی ایس او آزاد، آجکل یورپ میں مقیم سیاسی کمپین فری بلوچستان موومنٹ، منیر مینگل کی بلوچ وائس ایسوسی ایشن اور نائلہ قادری کی بلوچ پیپلز کانگریس بھی شامل ہیں۔
گزشتہ دنوں بلوچ نیشنل موومنٹ کے عالمی نمائندہ حمل حیدر نے ایک ٹوئیٹ کرتے ہوئے فدائی سمیعہ قلندرانی کے فدائی حملے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک بحث کا آغاز کیا، جس میں بعدازاں انہوں نے انتہائی بدتہذیب زبان کا استعمال کرتے ہوئے ایک بلوچ خاتون کو نہ صرف گالیاں دیں، بلکہ ایک ٹوئیٹر اسپیس میں بیٹھ کر ان گالیوں کو یہ کہہ کر جسٹیفائی کیا کہ وہ حساس ہیں، ان میں اب برداشت نہیں رہا، اور وہ سوشل میڈیا پر اس طرح کا زبان استعمال کرتے رہینگے۔
حمل حیدر جو بلوچ نیشنل موومنٹ کے فارن اسپاکس پرسن ہیں، وہ ایک شہداء کے حوالے سے پہلے تو تنزیہ ٹوئیٹ کرتے ہیں، انکی قربانی اور جدوجہد کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہیں استعمال کیا گیا ہے۔ اور پھر ایک مسلح جدوجہد میں برسرپیکار تنظیم کے سربراہ کے حوالے سے انتہائی غیر مہذب ٹوئیٹ کرتے ہیں۔ حمل حیدر اس سے قبل بھی ایسی بچکانہ حرکتوں کا مرتکب ہوچکا ہے۔ حمل حیدر کی اس تمام تر سازشی اور غیر سیاسی رویئے پر بی این ایم کے لیڈرشپ کی خاموشی بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے، کہ آیا کس طرح ایک ایسا شخص جو بذات خود یہ کہہ رہا ہو اسے اپنے آپ پر کنٹرول نہیں وہ جذباتی ہوکر ٹوئٹر پر کچھ بھی لکھتا ہے اور وہ مستقبل میں بھی ایسا کرتا رہیگا اسے کیوں جماعت کی ایک اہم پوزیشن پر رکھا گیا ہے ؟ کیا حمل حیدر کی باتوں سے بی این ایم متفق ہے؟ کیا حمل حیدر کے کئے گئے ٹوئٹس بی این ایم کے پالیسیوں کا شاخسانہ ہے؟ کیا غلام محمد بلوچ کا وہ موقف جس میں تمام تر آزادی پسند مسلح ؤ غیر مسلح تنظیموں کی اخلاقی حمایت ؤ کمک شامل تھی وہ اب صرف ایک علاقے تک محدود ہوچکی ہے ؟ کیا حمل حیدر بلوچ نیشنل موومنٹ کی پالیسیوں سے بالاتر بذات خود ایک پالیسی ساز شخصیت کی حیثیت رکھتا ہے؟ اگر بی این ایم کا مؤقف اس کا نظریہ شہید غلام کا ہے تو یقیناً بی این ایم کو حمل حیدر کے ان ٹوئیٹس پر نہ صرف نوٹس لینا چاہیے بلکہ ایک قومی شہید کی تذلیل اور ایک بلوچ خاتون سے بدتمیزی کرنے کی پاداش میں انکا احتساب کرنا چاہیے۔
حمل حیدر جو بلوچ نیشنل موومنٹ کا گزشتہ کم از کم ایک دہائی سے عالمی نمائندہ ہیں، نے آج تک عالمی سطح پر بلوچ قوم یا بی این ایم کے لئے کونسی ایک ایسی کامیاب سفارتکارانہ ذمہ داری سرانجام دی ہے جو بلوچ قوم اور بی این ایم کے کارکنان کے خواہشات کی عکاسی کرتا ہو؟ بیرون ممالک ہونے والی اکثر پروگرامز کی بھاگ دوڑ وہاں کے لوکل زونز، یا چیپٹرز کے رہنماوں نے سنبھالے ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں بی این ایم کے چیرمین براہ راست خود تنظیم کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں۔ جبکہ دیگر پروگرامز میں پارٹی کے دیگر بیرون ممالک مقیم رہنماؤں، سی سی ممبران کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن حمل حیدر کبھی بھی کسی مثبت عمل، کسی پروگرام، کسی کمپین کا حصہ بنتے دکھائی نہیں دیتے۔
وہ اکثر ؤ بیشتر فدائی حملوں کے بعد شہیدوں کی بے حرمتی کرتے، شہیدوں کے اہلخانہ کی دل آزاری کرتے، سیاسی کارکنان میں تفریق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج حمل حیدر بلوچ نیشنل موومنٹ کی جماعتی ڈھانچے سے خود کو نہ صرف زیادہ طاقت ور محسوس کررہا ہے بلکہ وہ اپنی پارٹی پالیسیوں کا براہ راست دھجیاں اڑاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن مجال ہے کوئی یہ سوال کرسکے کہ آپ کس پالیسی کے تحت ایسا کررہے ہو؟ حمل حیدر کی تنظیم کی پالیسیوں کو پے درپے پامال کرنے اور بار بار پارٹی کی جانب سے حمل حیدر کیخلاف ایکشن نہ لینا اس قیاس آرائی کو صداقت میں تبدیل کرتا نظر آتا ہے کہ حمل حیدر کو ایک مسلح تنظیم کے اہم ترین کمانڈر کی غیر مشروط کمک ؤ حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے بی این ایم کوئی بھی ایکشن لینے سے قاصر ہے۔
بی این ایم کے عالمی نمائندگی کا مطلب ہوسکتا ہے حمل حیدر یہ سمجھ بیٹھا ہو کہ دوسری تنظیموں کے مسائل میں دخل اندازی کرنا۔ اپنی سوچ، سمجھ اور عقل سے زیادہ تجزیہ نگاری کرتے ہوئے شہدائے بلوچستان کی بے حرمتی کرنا، حمل حیدر بلوچ نیشنل موومنٹ کا نمائندہ کم اکثر و بیشتر فمینیزم کا نمائندہ زیادہ نظر آتا ہے لیکن حمل حیدر کا فمینیزم بھی انسٹاگرام پر لڑکیوں کی ویڈیو شائع کرنا تک محدود ہوتی ہے۔ جبکہ حقیقی جدوجہد میں برسرپیکار ایک بلوچ بہن کی قربانی بقول حمل حیدر انہیں “استعمال کرنا” ہوتا ہے۔
بلوچ قوم یقینی طور پر ان تمام افراد سے بھی جو ایسی زہریلی سوچ کی پُشت پناہی کررہے ہیں جو صرف ایک غلط عمل کو صحیح قراردینے کی کوشش میں کبھی یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام سرمچار فدائیں ہیں۔ تو کبھی اشارتاً یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں، زندہ رہنا ضروری ہے، سے سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ فدائی حملے غلط ہیں تو آپ جناب نے پہلے انکی حمایت کیوں کی ؟ اگر آپ نے آج اپنا سوچ بدلا ہے یا آپکو آج کوئی وحی نازل ہوئی ہے کہ فدائی حملوں کی مخالفت کرنا ہے تو وہ بھی بتادیں ؟ لیکن آپ ایک ہی وقت میں دو الگ الگ کشتیوں میں سفر نہیں کرسکتے۔ اگر آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں فدائی حملے غلط ہیں اور آپ انکی حمایت نہیں کرسکتے تو کم از کم اس عمل میں قربان ہونے والے سرمچاروں کی مخالفت نہ کریں، انکی بے حرمتی نہ کریں، آپ کے حمایت کی کسی کو ضرورت نہیں اور نا ہی آپ کے مخالفت سے نوجوان اپنی جدوجہد سے دوری اختیار کرینگے البتہ اس سے آپکے عزت اور احترام میں کمی ضرور آئیگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔