جنگ، جنگوں کے خلاف – سلام صابر

1282

جنگ، جنگوں کے خلاف

تحریر: سلام صابر

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں سیاسی بیداری بلوچ انسرجنسی کی پیداوار ہے، ستر کی دہائی میں جنگ کے بعد قومی آزادی کی فکر سے وابستہ افراد خیر بخش مری کی سرکردگی میں افغانستان جلاوطن تھے اور بلوچ سیاست پاکستان کے پارلیمانی راہداریوں میں سرگرداں تھی۔

بلوچستان میں جاری جہد کے سرخیل خیربخش مری قومی آزادی کی جدوجہد میں مسلح جنگ کو فوقیت دیتے تھے کیونکہ طاقت کے بغیر دشمن کو شکست نہیں دی جاسکتی اور طاقت کو صرف طاقت ہی ختم کرسکتی ہے ، حق توار کی احیاء نے بلوچ تحریک کو سمت دی اور مستقبل کی تحریکی رہنماء اس سرکل میں بلوچ فکری کاروان کا حصہ بن کر اکیسویں صدی میں بلوچ انسرجنسی کی بنیاد رکھتے ہیں۔

خیربخش مری کے فکری ساتھی بلوچ لبریشن آرمی کے پلیٹ فارم سے جب مسلح جنگ کی بنیاد رکھ رہے تھے، اُس وقت بلوچستان میں سیاسی جماعتیں پاکستان کے پارلیمان میں کچھ سیٹوں کے لئے آزادی کی تحریک سے دستبردار ہوچکے تھے، وڈھ کے قومی رہنماء راسکوہ میں سرزمین کے سینے کو ایٹمی دھماکوں سے چھلنی کرنے کے بعد بخوشی پاکستان کے وزیر اعظم کی ڈرائیوری قبول کرچکے تھے اور مڈل کلاس کی رہنمائی کے دعویدار رہنماء ڈاکٹر مالک کے بقول اُن کے ساتھیوں نے انیس سو پچاسی میں ہی مسلح جہد سے تائب ہوکر پاکستان کے پارلیمان کی راہ اپنا لی تھی۔

جاری مسلح جدوجہد کی ابتداء کے وقت بلوچ انسرجنسی میں سیاسی محاذ موجود نہ تھا، اِس نقطے سے اختلاف رکھنے والے موجود ہوں گے لیکن تاریخ سے واقف سیاسی کارکن اس حقیقت سے انکار نہیں کریں گے کہ بلوچستان میں نئے صدی کے آغاز میں مسلح محاذ کے احیاء سے قبل بی ایس او اور بی این ایم ( بلوچستان نیشنل موومنٹ ) قومی آزادی کے جہد سے وابستہ نہ تھے ، بی ایس او اور بی این ایم ( بلوچ نیشنل موومنٹ ) کو نئے سرے سے تشکیل دے کر قومی آزادی کی جہد سے منسلک کرنے میں اہم کردار مسلح جہد نے ہی کردار ادا کیا۔

جنگ کے آغاز اور ابتدائی سالوں میں مسلح محاز ہی بلوچ انسرجنسی کی پہچان تھی، چیئرمین غلام محمد کی قیادت میں قومی سیاسی جماعت کے تشکیل کے ساتھ ہی سیاسی اداروں نے بلوچ جنگ کی آواز بن کر انسرجنسی کو توانائی بخشی اور چئیرمین غلام محمد و صباء دشتیاری نے بلوچ سیاسی محاذ پر قومی جنگ کی ترجمانی کرکے بلوچ قوم کو آزادی کی راہ میں مسلح جنگ کو منتخب کرنے کی تلقین کی ، ریاست نے بلوچ قومی اداروں کو کمزور و ختم کرنے کے لئے جبری گمشدگی کو ہتھیار کے طور استعمال کرکے سیاسی جماعتوں و اداروں کے قائدین کو سب سے پہلے نشانہ بنایا اور بلوچستان و کراچی کے طول و عرض میں جبری گمشدگیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

جبری گمشدگیوں میں مکتبہ فکر کی تفریق نہیں کی گئی، سیاسی رہنماء، دانشور، استاد، ڈاکٹر، مزدور اور جنگی سپاہی جبری گمشدگی کا شکار بنائے گئے جن کی بعد میں لاشیں پہاڑوں اور ویرانوں میں ملنے شروع ہوئیں۔ ریاست نے بلوچستان میں سیاست پر قدغن لگا دیا، سینکڑوں سیاسی کارکنوں نے خلیج اور یورپ کو مسکن بنالیا، ہزاروں سیاسی جہدکاروں نے پہاڑوں کا رُخ کیا اور مسلح محاذ کو جنگ کا نیا مورچہ بنالیا، لاکھوں لوگ بلوچستان کے مختلف علاقوں اور پنجاب و سندھ اور افغانستان جلاوطن ہوگئے۔

جنگ کی افریت سے متاثر یورپ میں جلاوطن کچھ افراد جو جنگ کے ابتدائی برسوں میں جنگ کا حصہ تھے، وہ کھلے عام یا دبے الفاظ بلوچ انسرجنسی کے حالیہ نئی جنگی حکمت عملیوں کی مخالفت کررہے ہیں کہ خدانخواستہ یورپ میں اُن کی سیاسی پناہ کی درخواست پر اثر پڑ کر اُن کی زندگی متاثر نہ ہو کیونکہ بلوچ انسرجنسی سے وابستہ مسلح ادارے بالادست پاکستان کے ساتھ چین کے سامراجی عزائم کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔

میرے علم میں نہیں کہ وہ جنگی حکمت عملیوں کی مخالفت کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر بالفرض بلوچستان میں سیاست کی اجازت ہوتی تو وہ یورپ میں جلاوطن ہوتے؟ سیاست کو ختم کرنے کی ریاستی پالیسیاں نہ ہوتی تو ڈاکٹر دین محمد اور ذاکر مجید جبری گمشدہ ہوتے؟ بلوچ مزاحمت کا راستہ منطقی نہ ہوتا تو امیر الملک خود ہی آخری گولی کا انتخاب کرتا؟ ریاست کی ہولناکیاں نہ ہوتے تو زبیر سرپرہ ہمیں مسخ شدہ لاش کی صورت میں ملتا؟ اگر ہمارے لئے کوئی پُر امن راستہ بچتا تو کیا شاری و سّمو فدائی حملے کرتے؟ جنگ کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دستور ہوتا تو کیا سولہ نوجوان ایک ہی رات دشمن کے کیمپوں پر حملہ آور ہوتے؟

ہم کیوں اس حقیقت سے انکاری ہیں کہ بلوچ جنگ کے بدولت ہی دنیا ہماری آواز سُن رہا ہے۔ اگر بلوچستان میں مسلح جہد نہ ہوتی تو آج بلوچستان میں ہماری فریاد سُننے کے لئے بھی کوئی نہیں ہوتا اور جنگی طاقت نہ ہوتی تو قبضہ گیریت کے پنجوں میں پسے ناتواں قوم کی وجود خطرے میں ہوتی۔

سّمی اور مہلب نے چودہ سال سے پاکستان کا کون سا ادارہ ہے جس کا در نہیں کھٹکٹایا، انہیں اب تک جھوٹی تسلیوں کے علاوہ کیا ملا ؟ زاکر کی بوڑھی والدہ پیراں سالی میں پریس کلب کے سامنے فریاد کناں ہے، اُسے انصاف ملا ؟ جب ستر کی دہائی میں پاکستان کو نئی زندگی دینے والے زولفقار علی بھٹو کے بیٹے پاکستان سے ناامید ہوکر الزولفقار کے نام سے پاکستان کے خلاف مسلح مزاحمت کا راستہ اپناتے ہیں تو ہم کیوں امید کرتے ہیں کہ اس ملک میں ہمارے لئے مسلح مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ ہے؟

کیا یورپ میں جلاوطن ہمارے سنگت سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پہ بینر ہاتھ میں لئے انسانی حقوق کی پامالیوں پہ نعرہ لگانے اور انسانی حقوق اداروں کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو رپورٹ کرنے سے قومی حقوق حاصل ہوجائے گی؟

بلوچستان میں پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف مسلح جہد نہ ہو تو کیا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا تسلسل جاری رہے گا؟

بقول بی این ایم کے سیکرٹری جنرل واجہ دلمراد کہ ” بلوچستان کا مسئلہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ قومی بقاء کا ہے “

ہم کیوں اپنی اندرونی خوف و گھبراہٹ کو چھپانے کی خاطر قومی بقاء کی جنگ کو انسانی حقوق کی پامالیوں تک محدود کررہے ہیں؟

بلوچ وائس فار جسٹس سے وابستہ ہمارے دوست لطیف بلوچ کے بقول اگر بلوچستان میں سیاست سے مسائل حل ہوتے تو پارلیمانی سیاست کے علمبردار سردار اختر مینگل وڈھ میں شفیق مینگل کے خلاف مورچہ زن ہوتے؟ پورپ میں جلاوطن ہمارے سنگت کیوں اتنے نادان ہوکر یورپ کی کھوکھلی انسانی حقوق کی سیاست بلوچستان کے جنگی حالات پر نافذ کرنا چاہتے ہیں؟

کیا ہمارے دوست یورپ کی سامراجیت سے واقف نہیں؟ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت پر یورپ کی خاموشی پر نابلد ہیں؟ سیاہ فام افریقی مہاجرین کو روانڈا بھیجنے کے برطانوی فیصلے سے آگاہ نہیں ہیں؟ جنگوں میں فیصلے قومی مفادات کے بنیاد پر ہوتے ہیں یا انسانی حقوق کے قوانین پر ؟ جب اقوام متحدہ سامراجی ممالک کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے اور یورپ اپنے قوانین پر عمل درآمد کرنے کے لئے تیار نہیں تو بلوچ جیسے کمزور قوت پر کیوں یہ قوانین تھونپے جاسکتے ہیں؟

عابد میر نے سن زو کے معروف کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئے پیش لفظ میں ایک خوبصورت پیراگراف لکھا ہے کہ “جنگ تباہی ہے، بربادی ہے، جنگ انسان دشمن ہے، ارتقاء دشمن ہے ،فن دشمن ہے، فنکار دشمن ہے، اس لئے دنیا کا شاید ہی کوئی فنکار ہوگا جو جنگ سے نفرت کا اظہار نہ کرتا ہو، دنیا بھر کے فنکاروں نے ہمیشہ جنگوں کے خلاف گیت لکھے، قصے تراشے، سماج میں جنگ گریز رجحانات کی ترویج کی ، کہ یہی فن کی اصل معراج ہے۔

لیکن ۔۔۔ جب فنکار کی دھرتی پر غاضبوں کا قبضہ ہو، جبر کا راج ہو ، استحصال کا دیو دھرتی کے معصوم انسانوں کی آزادی پر شب خون مار رہا ہو ، زمین کے محکوم انسانوں پر اس نے اپنے خونی پنجے گھاڑ رکھے ہوں تو ایسے میں قلم کار اپنے قلم کو ہتھیار بنالیتے ہیں ، جنگی ترانے لکھتے ہیں ، جنگوں کی کہانیاں بیان کرتے ہیں اور اپنے عوام کو جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور لڑنے کی ترغیب دیتے ہیں ، کہ یہی فن کی اعلیٰ معراج ہے۔

ظالم اور مظلوم کی لڑائی میں جو اپنے قلم کو مظلوم کے حق میں ہتھیار نہیں بناتا وہ قلم کے ساتھ زنا کاری کا مرتکب ہوتا ہے اور تاریخ کی صلیب پر عصر کی سنگساری کا حقدار ٹہرتا ہے”۔

ہمارا ایمان ہے کہ ہماری جنگ آنے والی نسلوں کو ہر قسم کی جنگوں سے محفوظ بنانے کیلئے ہے، اس لئے ہم ہر حال میں سرخرو رہیں گے۔

جنگ کے کئی پہلو ہیں اور لینن نے خوب کہا ہے کہ جنگ ایک صنعت ہے، جو ہزاروں لوگوں کے لئے تباہی کا باعث بنتا ہے اور کچھ لوگ جنگی صنعت سے سرمائے کا انبار جمع کرتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری انسرجنسی نے ہزاروں خوشحال خاندانوں کو تباہ و برباد کردیا ہے لیکن بلوچ انسرجنسی سے وابستہ کچھ لوگوں نے جہد آزادی کو منافع بخش کاروبار کا ذریعہ بناکر اپنے استحصالی مقاصد پورے کرکے مال و متاع اور ناموری کمایا ہے۔

بلوچستان میں جاری جنگ کے سبب ہزاروں خاندان سندھ، پنجاب، مقبوضہ مغربی بلوچستان اور ہمسایہ ملک افغانستان میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں، اور “چند محدود لوگوں” کو چھوڑ کر باقی مہاجروں کی تشویشناک حالت زار قابل دید ہے، لیکن بیرون ممالک گذشتہ ڈیڑھ عشرے کے سیاست، ہمارے بقول دوستوں کے ” سفارت کاری” سے اب تک مذکورہ بالا علاقوں میں آباد مہاجرین کے حوالے سے عالمی اداروں تک معمولی رسائی کیونکر ممکن نہیں بنا پائے ہیں؟

دنیا کی حالیہ جیو پولیٹکس سے ناواقف زوال پذیر یورپ میں بیٹھ کر ہمارے دوست پرامن سیاست و انسانی حقوق کے اداروں کے توسط اور سفارت کاری سے قومی حقوق حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ خطے کے صورتحال و بلوچستان کے زمینی حقائق دوستوں کے دعوؤں کے بالکل برعکس ہے۔

کیا ہمارے دوست کچھ یورپی ممالک میں احتجاج و مظاہروں سفارت کاری قرار دیتے ہیں؟ کیا اِن سرگرمیوں سے بلوچ قومی مسئلہ حل ہوجائے گا؟ اگر قومی و عالمی معاملات احتجاج و مظاہروں سے حل ہوتے تو کیا آج یورپ، امریکہ اور اتحادی یوکرین میں روس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوتے؟ کلسٹر بمبوں کے حوالے سے سو ممالک بشمول یورپ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے باجود امریکہ کے یوکرین میں روس کے خلاف کلسٹر بم بیجنے پر پورپی ممالک خاموش ہیں تو کِس بنیاد پر ہمارے دوست یورپ کے انسانی حقوق کے قانون ہمارے جنگ پر لاگو کرنا چاہتے ہیں؟

خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال، چین کی توسیع پسندی اور خطے میں مغربی طاقتوں کے زوال پزیری و بلوچستان مسئلے پر خاموشی نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ اگر اِن حالات میں بلوچ انسرجنسی سے وابستہ قومی جماعتیں اور جنگی ادارے وقت و حالات کے نزاکت کے مطابق سخت فیصلے نہیں کرتے تو مستقبل میں بلوچ قومی جنگ کے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

بقول خیر بخش مری اگر کچھ سالوں میں ہم بلوچ انسرجنسی کو انتہا تک لے جانے میں کامیاب نہ ہوئے تو ہمارے فیصلے کرنے والے اور ہونگے، ہماری قومی بقاء ہمارے جنگ میں پنہاں ہے اور اس فیصلہ کُن موڑ پر ہمارے دوست تذبذب کے بجائے اپنی توانائیاں قومی جنگ پر صرف کریں۔

خلاصہ

دنیا بھر کی تحریکی تاریخ سے یہ ثابت شدہ اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جنگ سے راہ فرار ہونے والوں کی رائے کو نہ سابقہ ادوار میں اہمیت دی گئی ہے اور نہ ہی موجودہ زمانے میں ایسے لوگوں کی رائے اہمیت دی جاتی ہے ۔

حرف آخر

یہ شرف انسانیت کے زمرے میں بھی آتا ہے کہ جب اور جہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی مثبت عمل سرانجام دیا جارہا ہے اور ہم انفرادی حوالے سے، اس عمل کا حصہ نہیں بن پاتے ہیں تو انسان کو اپنے اندرونی بغض کو دبا کر “اخلاقی جرأت” کا مظاہرہ کرکے یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ بذات خود ایسے قومی عمل کا حصہ نہیں بن سکتا، لیکن جو لوگ بالخصوص نوجوان جو توانائی رکھتے ہیں، جن میں جذبہ ہے تو ان سے کہہ دیں کہ وہ لازم اس قومی عمل کا حصہ بنیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔