جبری گمشدگیوں میں اضافہ و ڈیتھ اسکواڈز کی فعالی قبول نہیں – بی وائی سی

476
File Photo

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ اور ڈیتھ اسکواڈز کا فعال رہنا قابل قبول نہیں ۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

بلوچ یکجہتی کمیٹی شال، کراچی، اسلام آباد، لاہور اور کیچ نے مشترکہ بیان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافے اور ڈیتھ اسکواڈز کی منظم شکل اختیار کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات تھمنے کے بجائے مزید بڑھ رہے ہیں ۔

ترجمان نے کہاہے کہ جہاں ایک طرف ریاست بلوچستان میں حالات کو بہتر بنانے کیلئے مزاکرات و امن کی بات کرتی ہے وہیں دوسری جانب اپنی ہی باتوں کو رد کرتے ہوئے درجنوں افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، کو جبری طور پر لاپتہ کرکے گمنام زندانوں میں بند کر دیتی ہیں اور عام عوام زندگی کو اجیرن بنانے کیلئے مسلح جتھے جو بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈز کے نام سے جانے جاتے ہیں انہیں منظم کرتی ہیں، جس کی وجہ سے آج وڈھ و کئی علاقے جنگ زدہ حالات میں تبدیل ہو چکے ہیں وہیں دیگر علاقوں میں بھی ان اسکواڈز کی آپسی لڑائی اور قتل و غارت نے عوام کی زندگیوں کو تنگ گلی میں بند کر دیا ہے۔

انھوں نے سوال کیا ہے کہ یہ ریاستی دوغلا پن نہیں کہ جہاں ایک طرف بلوچستان کے حوالے سے سنجیدگی و مذاکرات کی بات کی جاتی ہے وہیں آپریشنز کے ذریعے لوگوں کو اٹھانے، جبری طور پر لاپتہ کرنے، مسخ شدہ لاش و فیک انکاؤنٹرز میں مسنگ پرسنز کو مارنے اور قتل و غارت گری کے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور مسلح جتھے و ڈیتھ اسکواڈز تشکیل دے کر عام عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا جاتا ہے۔ جب تک ریاست اپنے اس موقف و پالیسی میں تضاد کا خاتمہ نہیں کرتی اور عملاً بلوچستان میں جاری ناانصافیوں و قتل و غارت گری کو بند نہیں کرتی بلوچستان کے حالات کا ٹھیک ہونا ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کے دوران اب تک کے اطلاعات کے مطابق درجنوں افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ وہیں آپریشنز کے ذریعے عوام کے گھر مال متا اور معیشت کو بھی سنگین نقصان پہنچایا گیا ہے۔ پہلے سے کئی افراد کو لاپتہ کرنے کے بعد کل ایک اور چھاپے میں حصو بگٹی، ان کے دو بیٹے مری بگٹی اور خیرا بگٹی اور ٹھارو بگٹی و احمد علی بگٹی کو گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے علاوہ ڈیرہ بگٹی سے حسینو، دادن اور پنھل بگٹی بھی غیرقانونی طور پر حراست میں لئے گئے ہیں۔

“ڈیرہ بگٹی کے علاوہ آواران میں بھی آپریشن جاری ہے اور دوران آپریشن متعدد افراد کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں زاہد ولد دلبود، واحد ولد کریم بخش اور امداد ولد ابراہیم شامل ہیں جبکہ آواران کے ہی رہائشی کمسن شکیل ولد نصیر احمد کو حب چوکی سے جبرا لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ اسی طرح تمپ سے شہید کیگد بلوچ کے دو بیٹوں صغیر بلوچ اور داد رحیم کو ان کے گھروں سے اٹھا کر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے، تمپ ہی سے ایک اور واقعے میں 18 جولائی کو دو کمسن نوجوان فاروق ولد مراد محمد اور پیربخش کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک اور غیر قانونی چھاپے میں دسویں جماعت کے کمسن طالب علم شاہد ولد چارشمبے کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ ایک اور واقعے میں سیکورٹی فورسز نے چھاپہ مار کر کوئٹہ سے خضدار کے رہائشی محمد رضوان ولد رمضان نتھوانی کو غیر قانونی حراست میں لیکر نامعلوم زندان میں بند کیا گیا ہے۔ جبکہ اسی مہینے زبیر ولد جمعہ، سالم، حکمت ولد ماسٹر برکت، عنایت اللہ ولد کوہی بگٹی، عثمان ولد رضو بگٹی، اعظم ولد اللہ داد، ظہور ولد جام خان، گلاب ولد جمال، داد بخش، زباد بلوچ اور 80 سالہ بزرگ دینار بلوچ سمیت درجنوں افراد اغواء کیے گئے ہیں۔

ترجمان بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا ہے کہ جہاں ایک طرف سیکورٹی فورسز بلوچستان میں آپریشنز، غیر قانونی چھاپے، قتل و غارت اور جبری گمشدگیوں میں مصروف ہے وہیں ریاستی سرپرستی میں شفیق مینگل و دیگر ڈیتھ اسکواڈز نے وڈھ کو جنگی علاقے میں تبدیل کر دیا ہے اور عام عوام اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں وڈھ کے علاوہ بھی بلوچستان بھر میں ہر گلی اور کوچے میں ریاست نے ڈیتھ اسکواڈز کا ایک ایک گینگ تشکیل دے رکھا ہے۔ کہیں پر یہ چوری و چکاری سے گزارا کر رہے ہیں تو کہیں منشیات فروشی، اغوا و برائے تاوان، ڈرگ ڈیلنگ، کاروباری حضرات سے بھتہ وصولی، نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں، خواتین و بچوں کو ہراساں کرنے و اغوا کرنے سمیت ہر طرح کی ناجائز و غیر انسانی عمل میں ملوث ہیں۔ انھوں نے کہاہے کہ ریاستی سرپرستی میں قائم ڈیتھ اسکواڈز کی ایک شکل نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں نام نہاد وفاق و قوم پرست پارٹیوں نے اپنے مفادات کی تحفظ کیلئے ڈیتھ اسکواڈز کے گروہ تشکیل دیے ہیں ۔ اور تمام ڈیتھ اسکواڈز چاہیں ان کی ڈور کہیں کسی نام نہاد سیاسی افراد کے ہاتھوں میں ہے یا منشیات فروش کے ہاتھوں میں سب ریاست کے اشارے پر کام کر رہے ہیں اور ریاست کے اشارے پر ہی انہوں نے بلوچستان کو ان کے لوگوں کیلئے جہنم میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کے مظالم سے تنگ آکر نجمہ جیسی تعلیم یافتہ و عزت دار گھرانے سے تعلق رکھنے والی خواتین خودکشیاں کر رہی ہیں یا انہیں قتل کیا جا رہا ہے۔ ترجمان نے کہاہے کہ ریاستی سرپرستی میں قائم ان اسکواڈز نے بلوچستان میں مظالم کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں جن کی مثال نہیں لیکن انہیں غیر مسلح کرنے کے بجائے ریاست اپنے مفادات کیلئے انہیں مزید مسلح کر رہی ہے۔ ان گروہوں کو مسلح کرنا ریاست کی جانب سے بلوچستان میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی کوشش ہے جن کے خلاف بلوچ عوام کو منظم ہونے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا ہےکہ اگر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات ختم نہ ہوئے اور ڈیتھ اسکواڈز کو غیر مسلح نہ کرنے کے ساتھ انہیں اسی طرح چھوٹ دیا گیا تو اس کے خلاف بلوچستان و پاکستان بھر میں سیاسی تحریک کا آغاز کرینگے۔

ترجمان نے کہاہے کہ ہزاروں گمشدہ افراد کو رہا کرنے کے بجائے مزید لوگوں کو لاپتہ کرنا اس بات کی گواہی ہے کہ ریاست بلوچستان میں جاری انسانی المیے کو روکنے کے بجائے اس میں شدت لانے کی خواہش رکھتی ہے جبکہ مسلح جتھوں کو غیر مسلح کرنے کے بجائے بلوچستان بھر میں ان کا جال پھیلانا اور انہیں مزید اسلحہ و گولا بارود مہیا کرنا اس بات کی گواہی ہے کہ ریاست بلوچستان میں امن نہیں بلکہ بلوچستان میں خونریزی کی خواہشمند ہے۔ انھوں نے کہاہے کہ ہم بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ سیاسی تحریک و جدوجہد کے ذریعے ریاست کے ان غیر قانونی اور غیر انسانی عمل کے خلاف ہماری جدوجہد کا ساتھ دیں تاکہ ہم بلوچستان کو ریاست کے ان غیر انسانی پالیسیوں کے یرغمال ہونے سے بچا سکیں۔