جانتا ہوں میں کہاں جارہا ہوں ۔ سلیمان بلوچ

357

جانتا ہوں میں کہاں جارہا ہوں

تحریر: سلیمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں کون ہوں میرا وجود کیا ہے؟ میں کیوں ویرانوں میں بٹھک رہا ہوں میں پیاسا ان صحراؤں میں اکیلے سفر کررہا ہوں قافلہ میرے پیچھے ہے یا میں قافلہ کے آگے مجھے نہیں پتا لیکن میں جارہا ہوں۔

ہر رہ گزر مجھے یہی کہتا ہے کہ ہم بٹھکے ہوئے ہیں منزل تک پہنچنا دشوار ہے ہم انتظار میں ہیں کوئی آکے ہمیں لے جائے گا بٹھکے ہوئے لوگ اپنے چاروں اطراف دیکھ رہے تھے کوئی آئے گا ہمیں یہاں سے لے جائے گا لیکن شام ہونے تک کوئی نہیں آیا اور میں سورج کی بچی ہوئی کرنوں کا سہارا لیکر آگے چلنے لگا۔

میلوں سفر کرنے کے بعد دور ایک قافلہ رکا ہوا ملا، پوچھنے پر قافلہ میں سے ایک نے بتایا ہم بھی بٹھکے ہوئے ہیں لیکن ہم جلد منزل کو ڈھونڈ لینگے۔
وہ کیسے؟
تو اس شخص نے پر سکون انداز میں مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ سورج ہمیں منزل تک پہنچائے گا ان لوگوں کی اندازے سے مجھے یقین ہوگیا وہ راستے پر ہیں وہ روشنی کی طرف جارہے ہیں۔ وہ جانتے تھے ان کا سفر دشوار، پرخطر، اور مصیبتوں سے بھرا ہوا ہے لیکن وہ منزل کی طرف رہے ہیں۔

آزادی کا صحیح فیصلہ ہم تب تک کرسکتے ہیں جب ہم قربانی کے صحیح معنوں کو پہنچان لیں۔ جب ہم اپنی وجود کے ہونے یا نا ہونے کو جان لیں کہ ہمیں اپنی مقصد کیلئے زندہ رہنا ہے یا فنا ہوجانا ہے
ایسے خیالات اس وقت زہن میں آتے ہیں جب کوئی خود کو کسی مقصد کیلئے منتخب کرے تب اس کا ضمیر اسے سوال کرتا ہے کہ اپنی شخصیت پہچان لو تم کون ہو۔

اگر کوئی انسان خود کو پہچاننے لگتا ہے تو معمول کی زندگی سے نکل کر غیر معمول بنتا ہے پھر وہ ہر چیز کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے لگتا ہے۔

پھر یہ اس فرد پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اس غیر معمولیت کو بھانپ کر ایک انقلابی بنتا ہے یا پاگل یہ سب اس کے فیصلے پر ہیں کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے۔

راستے پر وہی لوگ ہوتے ہیں تو صحیح فیصلہ کرتے ہیں اس قابل ہوتے ہیں کہ وقت اور طاقت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڈ سکتے اس فیصلے نے سمعیہ کو جنم دیا وہ جانتی تھی اس کا فیصلہ شعوری فیصلہ ہے وہ اپنی مقصد کو ترجیح دے رہی تھی وہ جانتی تھی اس کا یہ عمل سورج کی کرنوں کی مانند ہے یہ عمل تاریکیوں پر حاوی ہوجائے گا اور ایسا ہی ہوا۔

وہ سوچ سے نکل نظریہ بن جاتی ہے وہ انفرادیت سے نکل کر اجتماع بن جاتی ہے وہ ایک جہد کار سے نکل کر عظیم مقصد بنتا ہےجو عشق انتہاء میں خود کو فنا کرتی ہے۔

وہ جانتے ہیں وہ کہاں جارہے ہیں وہ اس طرح بننا نہیں چاہتے جو تم چاہتے ہو وہ اس طرح بنیں گےجو وہ چاہتے ہیں کیونکہ وہ آذاد ہیں ان کی سوچ آذاد ہیں وہ خود سے فیصلہ لینے کے قابل ہیں تمہاری طاقت چاہ کر بھی اسے غلام نہیں بنا سکتی اب تم اپنی ہزار کوششوں اور پروپیگنڈوں کو منظر عام پر لاو تم بہکے ہوئے لوگوں کو لالچ دے کر میڈیا کوریج دو لیکن پھر بھی لوگ وہی بنیں گے جو وہ چاہتے ہیں۔

تم اپنی طاقت سے ہارے ہوئے ہو تم بے گناہ لوگوں مارتے ہو تم عورتوں کی روایت کو مسخ کرکے عورتوں کی روایت کا غلط درس دیتے ہو لیکن پھر بھی ہم وہ نہیں بننا چاہتے جو تم چاہتے ہو
لاشیں سرد خانے میں پڑے ہیں کئ بے گناہ لوگ لاپتہ ہیں کئیوں کو مار کر دفن کر دیا ہے مجھے اس بات کی کوئی افسوس نہیں کیونکہ یہ جنگ کے حصے ہیں دشمن اپنی ساخت بچانے کیلئے ہمیں مارے گا اور ہم اپنی دفاع کیلئے لڑیں گے۔

سامراج ہمارے بقاء ، روایت، ہماری تاریخ کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان جیسوں کی طرح اندھے، گونگے، بہرے بنیں لیکن ہمارے آنکھ کھلے ہیں ہم دکھ درد سسکیوں کو سن رہے ہیں دیکھ رہے ہیں جو تم ظلم کے پہاڈ ہم پر تھوڈ رہےہو اس ظلم کے جواب دینے کیلئے ریحان کے قافلے آئیں گے اس زمین کی خوشبو کی خاطر اسلم کے لوگ آئیں گے اس زمین کی آذادی کی خاطر شاری جیسے سمعیہ بھی آئیں گے کیونکہ ہم وہ نہیں بننا چاہتے جو تم چاہتی ہو ہم وہی بنیں جو ہم چاہتے ہیں اور ہم جانتے ہیں ہم کہاں جارہے ہیں۔ ہم مقصد کیلئے جارہے ہیں ہم آزادی کے لیے جارہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔