تجابان لیٹریری سوسائٹی ۔ زِرنود بلوچ

297

تجابان لیٹریری سوسائٹی 

تحریر: زِرنود بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏‎گزشتہ روز تجابان لیٹریری سوسائٹی نے بلوچی زبان کے نامور گلوکار نورخان بیزنجو اور سبزل سانگی کی یاد میں ایک ادبی فیسٹیول کے نام پر نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار کو ایک سیاسی پلیٹ فارم دینے کی ناکام کوشش کی جس سے پروگرام کے شرکا، مقررین اور علاقے کے لوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ تجابان کی اس ادبی سوسائٹی ایک مہینے سے اس سالانہ پروگرام میں تشہیر میں لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی سے کام لے رہا تھا تاکہ وہ اس ادبی پروگرام کو تجابان کے ایک خاندان کی سیاسی مفاد کے لئے استعمال کر سکے۔ پروگرام کے شرکا، مقررین، شاعر و ادیب اور علاقے کے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ یہ خالص ایک ادبی پروگرام ہو گا اور مہمان خاص کمشنر مکران ہو گا۔ لیکن دوسری طرف چند مخصوص لوگوں نے اپنی سیاسی عزائم کے لئے اس پروگرام کے مہمان خاص کو صیغہ راز رکھا تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ اس میں شرکت کریں۔

‏‎پروگرام کے شروع ہونے سے کچھ لمحہ پہلے جب سوسائٹی کے مفاد پرست ٹولہ نے نیشل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک بلوچ، سکریٹری جنرل جان محمد بلیدئ اور بی ایس او پجار کے چیرمین بوھیر صالح کو مدعو کرنے کا فیصلہ سنایا تو سوسائٹی کابینہ کے اکثریتی ارکان نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا جس کے واضح ثبوت سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ باخبر زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس مفاد پرست ٹولے نے ایک ہفتہ پہلے ڈاکٹر مالک اور جان محمد بلیدئ پروگرام میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنے کی دعوت دی تھی لیکن اس بات کا پتہ صرف 3 لوگوں کو تھا۔ حتی کہ تجابان کے معروف سیاسی و سماجی شخصیت اور یونین کونسل کے چیرمین سردار رحیم بخش کو اس سارے پس منظر میں اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ تجابان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ تجابان کے ہردل عزیز شخصیت سردار رحیم بخش کے بھتیجے اُسے سیاسی منظر نامے سے ہٹا کر خود سیاسی وارث بننے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ علاقے کے سیاسی و سماجی امور پر انکا کنٹرول ہو۔

‏‎جب پروگرام کا آغاز ہوا تو شرکا اور مقررین کمشنر مکران کا بطور مہمان خصوصی انتظار کر رہے تھے کہ اچانک نیشنل پارٹی کا 40 گاڈیوں کا قافلہ ادبی پروگرام کے پنڈال کے حدود میں داخل ہوا جو تربت سے 120 لوگوں کے ساتھ روانہ ہوا تھا جس سے شرکا اور مقرریں حیران و ششدر رہ گئے۔ عینی شاہد کے مطابق شرکا کی ایک کثیر تعداد نے ڈاکٹر مالک اور جان محمد بلیدئ کے تشریف آوری کے ساتھ ہی پروگرام سے احتجاجا واک آؤٹ کیا جس سے پروگرام میں اکثریتی لوگ نیشنل پارٹی کے تربت سٹی کے ورکرز لگ رہے تھے جو کہ سوشل میڈیا پر شئیر ہونے والے تصاویر میں واضع دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مقررین اور شاعر و ادیبوں نے سیاسی لوگوں کو ادبی پروگرام میں مدھو کرنے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا جن کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر شئیر کئے جا رہے ہیں کیونکہ ڈاکٹر مالک نے اپنی تقریر میں ادب سے متعلق ایک الفاظ نہیں کہا اور نہ ہی بلوچی زبان کے نامور فنکار نورخان بیزنجو اور سبزل سامگی کے بارے کچھ کہا بلکہ اپنی تقریر سیاست سے شروع کی اور سیاسی مخالفین تک ختم کی۔

‏‎تجابان اور گرد نواح کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ڈاکٹر مالک وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے اس علاقے کے لئے ایک ٹکے کا کام نہیں کیا لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں سیاسی باتیں کرکے لوگوں کے دل بہلانے کی کوشش کی۔

‏‎معاشرہ میں سیاست کرنا اور سیاست کے لئے کسی سیاسی پارٹی کا انتخاب کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے لیکن ایک مفاد پرست ٹولے کا اپنی سیاسی عزائم کے لئے علاقے کی لوگوں کو ادبی مشاعرہ اور میوزیکل پروگرام کا لالچ دے کر دھوکہ دینا قابل مذمت عمل ہے۔ اگر سیاست کرنا ہے تو بڑے شوق سے کریں۔ نیشنل پارٹی کے لیڈر ڈاکٹر مالک اور جان محمد بلیدئ کو اپنے گھر بلائیں اور ان کے لئے جلسے جلوس کا اہتمام کرے نہ کہ اس طرح کے ادبی پروگرام کو سیاست کی نذر کرے اور اپنی ذاتی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے استعمال کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔