بیوروکریسی اور بلوچ طلباء – نورا گل

210

بیوروکریسی اور بلوچ طلباء

تحریر : نورا گل

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ طلبا ٕ کی سیاسی سرگرمیوں کا اگر ماضی میں صورت حال دیکھیں تو مختلف ریاستی پالیسیوں کے تحت طلبا ٕ کو سیاست سے کنارہ کرنے اور طلبا ٕ حقوق کے جدوجہد کو مٹانے کیلۓ جبر ،تشدد اور خوف کا راستہ اپنا کر طلبا ٕ کو پولیس کے ذریعے مختلف جعلی مقدمات کے بنا پر قید کیا جاتا پھر پالیسیوں میں تبدیلی لاٸی گٸی جب شعور کی شدت بڑھنے لگی تو تشدد کی بھی شدت تیز کردی گئی ۔

سیاسی رجحانات کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ سامراجی و استعماری نظام کی فرسودہ عقاٸد کمزور ہونے لگے تو قبضہ گیر بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے لگا ۔ طلبا ٕ کی جبری گمشدگی کا نابند ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ، مسخ شدہ لاشیں تحائف میں فراہم کردیۓ گۓ ۔

یہ تمام ریاستی جبر ڈیتھ سکواڈ کے ذریعے کراٸی جارہی تھی ۔ ڈیتھ سکواڈ پورے بلوچستان میں قباٸلی لوگوں پر مشتمل تھا، بظاہر سارے بلوچ تھے جو اپنی عیاشی کے خاطر قوم سے غداری کر رہے تھے لیکن انکے پشت میں ریاستی مشینری کارمز تھی ۔

ڈیتھ سکواڈز کا یہ سلسلہ کافی عرصہ رہا جب ریاستی ٹاسک مکمل ہوا تو آپسی جھگڑوں میں کچھ کارندوں کو ملوث کرکے ختم کیا گیا تو کچھ کارندوں سے طاقت چھین کر ان کی پرانی حیثیت بحال کردی گٸی کچھ کو وقتی طور پر خاموش کیا گیا۔ ڈیتھ سکواڈز کا نیا چہرہ بیوروکریسی کے شکل میں سامنے لایا گیا ہے جو مزید تبدیلیوں کے ساتھ جاری ہے ۔

بلوچ قوم کواب یہ جان لینا چاہیۓ کہ یہ بیوروکریٹس فوجی چھاونیوں سے حکم نامہ لیکر بلوچ طلبا ٕ کو ترقی پسندانہ ماحول سے روکھنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ،ماضی میں یہی کام شفیق مینگل بطور اعلی عہدیدار اپنے مسلح دفاع نامی ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں سے کروارہا تھا تاکہ باشعور بلوچ طالب علموں کو ”مارو اور پھینکو “پالیسی کے تحت نشانہ بناکرشعوری و فکری ماحول کو منجمد کیا جا سکے ۔

قبضہ گیری پالیسیوں کے پیش نظر حالت کی جدلیاتی تناظر کو دیکھ کر نٸی قبضہ گیری پالیسی ترتیب دیکر ادارتی شکل کا قیام کیا گیا ہے جس میں ڈیتھ سکواڈ کا سرغنہ بیوروکریسی کے کھاتے میں ڈال کر بیوروکریٹس کو ڈیتھ سکواڈ کا سرغنہ بناکر لیویز کی ٹیم اسکے ماتحت تشکیل دیکر تمام علاقوں کو قابوکیاجانےلگا ۔ اس سلسلے میں بیوروکریٹس کو عوام کے سامنے ہیرو بنانے کیلۓ پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے بھی بھر پور معاونت کی اور پھر چند افراد جن کا ہمیشہ سے طاقتور کی جانب جھکاٶ تھا تو انہوں نے بھی ان ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں کے ہاتھوں بیعت کرلی ۔ اسکولوں کے سرپرست اعلی بڑے ذوق و شوق سے شفیق مینگل کے ٹاسک کو آگے بڑھانے والے ان بیوروکریٹس کو بھر پور لبیک کہ کر چند وقتی اور ذاتی مفادات کے خاطر اپنے ادارے میں بیوروکریٹس کو مدعو کرنے لگے ، میگا پروگرامز ہونے لگے ،لاشعور طلبا ٕ سے صفت و ثنا ٕ خوانی کرواٸی گٸی” اے سی او ڈی سی “کی تعبیداری سکھاٸی گٸی ۔

سپورٹس تک ان ڈیتھ اسکواڈ کے افراد کو ملوث کیا گیا تاکہ ہر طبقے کو یہ باور کرایا جاۓ کہ غلامی میں ہی آسودگی ہے بس زندگی یہی ہے کہ آپکو چند وقتی فواٸد کے کیلۓ مراعات فراہم کیۓ جاۓ تو حقیقی زندگی یہی ہے ۔ 14 اگست جیسے دنوں کا اہتمام کرکے اسپورٹس سے منسلک نوجوانوں کو وردی بیٹ کا لالچ دیکر اپنی جانب راغب کیا جانے لگا ۔

مذہبی درسگاہیں بھی ان ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنوں کے اثر سے نہ بچ سکے ۔ کچھ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی آنکھوں کا تارہ بن گۓ تو کچھ طلبا ٕ تنظیموں کے محفلوں کی رونق ۔

بیوروکریسی ڈیتھ اسکواڈ کی ادارتی شکل ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کو سیاسی حوالے سے پسماندہ رکھنا ، شعوری عمل اور مثبت سرگرمیوں کو روکنا اور طلبا ٕ کی حقوق کی جدوجہد کو خوف اور جبر کے ذریعے زیر کرنا اور غلامانہ سوچ کو قاٸم رکھنے کیلۓ موجود ہر نظام کو اپنے قابو میں کرنا آیا وہ اسکول ہو کالج ہو ہسپتال ہو یا کہ کاروباری مرکز ۔ ان ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں کی عمل ، نیت اور منفی عزاٸم سے بخوبی واقفیت رکھ کربلوچ قومی جدوجہد کو اپنی منزل تک پہنچانے کیلۓ مستقل عمل میں رہ کرسوال وتنقیدی ماحول قاٸم کرکےانفرادی سوچ پر اجتماعی سوچ کو غالب کرکے ہی بلوچ طلبا ٕ کیلۓ بقا ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔