نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور جب تک اس کو سیاسی طور پر نہیں دیکھا جائے گا بلوچستان اسی طرح خون آلود رہے گا۔
انکا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام کو ووٹ کا حق دینا ہوگا اور پوسٹنگ ٹرانسفر اور راتوں رات پارٹی بنانا بند کرنا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد پریس کلب کے تعاون سے فیڈرل یونین آف جنرلیسٹ اور پاکستان ڈیولپمنٹ الائنس کی جانب سے نئے میثاق جمہوریت پر وسیع مباحثہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ اس مباحثے میں نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ملک ایوب اور پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر بھی شریک تھے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ تقریب سے حاصل مثبت سفارشات کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنائے گے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی کی خواہش ہے کہ نیو سوشل کنٹریکٹ ہو جس کی بنیاد سوشل ڈیموکریسی پر ہو۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ نیشنل پارٹی فیڈریشن پر یقین رکھنے والی جماعت ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ وہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتی ہے پارلیمنٹ کو سپریم اور عدلیہ و میڈیا کی مکمل آزادی کے قائل ہے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ ہم سب جمہوریت جمہوریت کی بات کرتے ہیں سوال یہ کیا اس ملک میں کیا واقعی جمہوریت ہے۔ یہاں سول حکومت بھی سمجھوتہ کر لیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پی ڈی ایم سے بڑے توقعات رکھے تھے بڑی جدوجہد بھی کی لیکن بلا آخر انھوں نے بھی سمجھوتہ کرلیا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کو اب بھی ووٹ کا حق حاصل نہیں ووٹ ایک کو پڑھتے ہیں اور کامیاب دوسرا ہوجاتا ہے۔ 2013 کے انتخابات میں اکرم دشتی تین بار جیتے لیکن ان کو تینوں بار ہروایا گیا۔ ہم نے الیکشن کمیشن بتایا کہ الیکشن کمیشن 9 پولنگ اسٹیشنز کے انتخابات شفاف اور غیر جانبدار نہیں کرسکتا تو وہ پاکستان کی الیکشن کس طرح غیر جانبدار و منصفانہ کرسکتا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں راتوں رات پارٹی بنائے جاتے ہیں اور پوسٹنگ ٹرانسفر کیے جاتے ہیں۔ اب الیکشن ہے بلوچستان میں کیا ہورہا ہے جو کئیں نہیں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک اس ملک میں اشرافیہ طاقتور ہے تب تک عوام اور ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اشرافیہ کی قومی وحدتوں میں کردار مختلف ہے۔بلوچستان میں بھی اشرافیہ موجود ہیں۔اس لیے طاقت کا محور عوام کو بنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ابھی تک سیاسی حوالے سے نہیں لیا جارہا ہے بلکہ اس کو جغرافیائی لحاظ سے دیکھا جاتا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور جب تک اس کو سیاسی طور پر نہیں لیا جائے گا تب تک بلوچستان خون سے آلود رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نیشنل عوامی پارٹی کی فالوورز تھے اور جمہوری جدوجہد کے قائل ہیں۔ جمہوری جدوجہد سے 1973 کا آئین بنا تھا اور جمہوری جدوجہد سے ہی 18 ویں ترمیم ہوا 18 ویں ترمیم کے وقت بہت مشکلات تھے میں ممبر تھا لیکن کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور تمام جمہوری جماعتوں کو جاتا ہے جنہوں اختلافات بالائے طاق رکھ کر اٹھارویں ترمیم کو یقینی بنایا۔
انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم آج بھی عمل درآمد ہونے کےلیے ترس رہا ہے تمام اختیار منتقل ہونے کے باوجود عملدرآمد نہیں ہورہا ہے نیشنل پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات پر جانا چاہیے اور عوام کی بالادستی پر یقین رکھنا چائیے۔آپ دوستوں کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ ہم ڈی سینٹرلائزڈ کے قائل ہیں اور چاہتے ہیں کہ اختیارات اسلام آباد سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز پر منتقل ہو لیکن اس بار بلوچستان میں جو لوکل باڈیز کے الیکشن ہوئے ایک ضلع کونسل و چیئرمین کا ووٹ ایک سے ڈیڑھ کروڑ میں بکا ہے۔