ادب اور انقلاب ۔ ایس کے بلوچ

401

ادب اور انقلاب 

تحریر: ایس کے بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

ادب اور انقلاب دو الگ اصطلاحات ہیں لیکن یہ دونوں اصطلاحات ایک معاشرے کی پیداوار ہوتے ہیں، ایک ہی ملک کی نمائندگی کرتے ہیں اگرچہ انقلاب عوامی تحریک یا گوریلہ جنگ سے قائم رہتی ہے وہیں دوسری طرف ادب معاشرے کے اندر انقلاب کو فروغ دیتا ہے، ایک نئی امید لا کھڑا کر دیتا ہے، ادب کی تعارف مختلف ادیب و شاعر اور مصنفین کے ہاں مختلف رہی ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب آئینہ کے ساتھ معاشرہ کی آکسیجن بھی ہے جن کے بغیر معاشرہ لا وارث نظر آتا ہے۔ ادب شاعری و نثر پر مشتمل ہے۔ نثر اصناف میں ڈرامہ، فلم، افسانہ، مکتوب نگاری، سفر نامہ، تاریخ اور داستان شامل ہیں۔ بلوچی زبان پر مشتمل ادب بلوچی ادب کہلاتا ہے، اور اردو پر اردو ادب۔ اسی طرح ہر قوم و ملک اور معاشرے کی الگ الگ ادب ہوتے ہیں جو اپنی اپنی تاریخی حقیقت پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ادب کا اہمیت زیادہ رہا ہے چونکہ ادب لفظ و اصطلاحات کے ترتیب و تنظیم سے وجود میں آتا ہے اور ان لفظوں میں انسانی جبلتی خواہشات و افکار اور اظہارِ تشکر و قدردانی شامل ہوتے ہیں جو کہ ایک اجتماعی ہیئت کا ایک مخصوص نظامِ تمدن کا پروردہ ہوتا ہے۔ یہ مختلف ادوار میں مختلف نظریاتی و فلسفوں مثلآ روشن خیالی، نیوکلاسزم، رومانیت، ساختیات، نئی تنقید، مارکسزم، ماڈرنزم، پس ساختیات، ردتشکیل، وجودیت، اور دور حاضر، پوسٹ ماڈرنزم، تک جتنے ادوار و فلسفے اور رائیٹرز آئے تھے سب میں ہر کسی کا الگ فلسفہ تھا، کوہی وجدی تھا تو کوہی روشن خیال اور کوہی ماڈرنسٹ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد نئے فلسفیوں نے جنم لیا، جن میں سے ایک سارتر تھا جن کی بدولت ہیڈیگر و ھسرل، کانٹ اور باقی فلسفیوں کے بعد ادب کو ایک نئی روح مل گئی، ایک نئی صبح تلوع ہوا۔

کب انہوں نے اپنی کتاب” Being and Nothingness ” میں وجود اور عدم پر ایک نئی بحث چھیڑی تو مذہبی و لفٹسٹوں نے ان کو تنقد کا نشانہ بنایاتھا لیکن آج سارتر کے بغیر انسانی وجوود پر بات کرنا کافی نہیں ہوگا۔

سارتر “فلسفہ وجودیت” کی بانی کہلاتے ہیں۔ انہوں نے جب الجزائر کی قومی تحریک کی حمایت کی تو ان کی گھر پر راکٹ برسائے گئے لیکن وہ مکمل طور پر الجزائری جنگ آزادی کی حمایت میں کھڑا تھا، انہیں تاریخ کے سنہرے حروف خود اپنی گود میں لیتے ہیں۔ دوسری طرف ان کی دوست فینن کی مضامین بھی سارتر کی نقطہء نظر سے مختلف نہیں تھے کیونکہ وہ بھی سارتر کی طرح تجربات سے سیکھنے کو کہتے۔

جس طرح سارتر کا ماننا تھا کہ ہمیں زندگی کو سمجھنے کیلئے اپنے تجربات کو اہمیت دینا چاہیے ناکہ نظریات اور اعتقاد کو۔ ہسرل جو کہ خود فینامینولوجی کی بانی ہے کے مطابق تخلیقات کی بنیاد تجربات سے شروع ہوتے ہیں۔ فلسفہ وجودیت کا یہی نقطہء نظر ہے کہ انسانی تجربات ان کے نظریات اور اعتقاد سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔انسان آزاد ہے جنہیں کسی قوانین کی پابند نہیں کیا جاسکتا۔

آئندہ انہی فلسفے، وجودیت،پر مختلف دانشوروں نے بحث و مباحثے چھیڑ دی تھی لیکن جو چیز اہمیت کے حامل رہے ہیں وہ خود انسانی خواہشات ہی ہیں۔ یہ خواہشات انسانی نفسیات، جسمانی، اجتماعی سوچ اور کہیں نہ کہیں انفرادی بھی ہوتے ہیں لیکن خواہشات جسمانی ہو یا نفسیاتی و اجتماعی انہیں پورا کرنا ہی ” آزادی” کی شرط ہے لیکن انسان خود کو آذاد کتنے کیلئے بہت سارے دشواریوں کا سامنا کرتی ہے۔

بقول روسو” انسان آزاد پیدا ہوا لیکن جہاں دیکھو وہ پابند سلاسل ہے۔” روسو انقلاب فرانس کے بانی ہیں، انہوں نے ایک کتاب” دی سوشل کنٹریکٹ” لکھ کر انسانی معاشرہ پر اپنی رائے دی اور انہی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “غلام اپنی غلامی میں سب کچھ کھو بیٹھے ہیں، یہاں تک کہ غلامی سے نجات پانے کی خواہش بھی۔ انہیں اپنی غلامی ویسی ہی محبوب ہوتی ہے جیسے پولیسیس کے رفیقوں کو اپنی بہیمیت عزیز تھی۔” روسو کی کتاب میں سنہرے جملے یہی بتاتے ہیں کہ ہر چیز غلام سے جاتی ہے اگرچہ وہ ادب ہو یا خود قومی تحریک کیونکہ وہ خود بھیج دیتے ہیں، اپنے آپ کو آللہ کی دربارہ کا ایک لنگڑا لونگڑا بناکر گھومتے ہیں۔ آج ہماری انقلاب اور ادب دونوں کو دو الگ طبقوں کے دو الگ چیزیں سمجھ کر ادیب و شاعر اور نام نہاد دانشور طبقے بیان بازیوں کے حصے بننے ہیں، انہیں بیوروکریسی کی میدان میں دیکھ کر حیرانگی تو ہوگی لیکن انہیں کوہی فرق نہیں پڑتا لیکن جو انسان ابھی تک کسی نہ کسی حد تک اپنے تخلیقات سے معاشرہ کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں آجکل وہی لوگ انقلابی کو الگ خواہشات کا فرد سمجھ کر عجیب و غریب لیکچرز دیتے ہیں جن پر علمی و فلسفیانہ مباحث بے حد ضروری ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔