فرانس میں گذشتہ چار روز سے جاری احتجاجی لہر کے دوران صدر ایمانوئل میکروں کی ایک کنسرٹ میں شرکت کی تصاویر سامنے آنے کے بعد ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
فرانس کی حکومت نے ایک الجزائری نژاد نوجوان کی پولیس فائرنگ سے قتل کے بعد چار روز سے جاری پرتشدد احتجاج پر قابو پانے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں 45 ہزار پولیس اہلکار اور بکتر بند گاڑیاں تعینات کر رکھی ہیں۔
اسی دوران گذشتہ روز اس وقت تنقید کا رخ فرانسیسی صدر کی جانب مڑ گیا جب ان کی ایک کنسرٹ میں شرکت کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں جس کے بعد صارفین کی جانب سے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تشدد کی اس لہر کے دوران سینکڑوں گاڑیوں اور عمارتوں کو جلایا جاچکا ہے جبکہ کئی سٹورز بھی لوٹ لیے گئے ہیں۔
یہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کے دور میں سال 2018 کے دوران ہونے والے احتجاج کے بعد اب تک کا سب سے بڑا بحران ہے۔
یہ مظاہرے 27 جون کو اس وقت شروع ہوئے، جب پیرس کے مضافاتی اور کم آمدنی والے افراد پر مشتمل قصبے نانٹیرے میں 17 سالہ ’ناہیل ایم‘ ٹریفک اشارہ توڑنے کی پاداش میں گولی مار کے قتل کر دیے گئے تھے۔
جس کے بعد مظاہرین نے مقتول کی والدہ کی قیادت میں ’ناہیل کے لیے انصاف‘ جیسے نعرے لگائے اور بعد ازاں ایک مقامی بینک کو آگ لگا دی۔
فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینین کے مطابق پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے کے الزام میں جمعے کو مزید 270 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس کے بعد اس احتجاج کے دوران گرفتار افراد کی تعداد 1100 سے زیادہ ہو چکی ہے۔
صرف جمعے کی رات کو جنوبی شہر مارسیل سے 80 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس سے قبل فرانسیسی پولیس نے جمعرات کی رات جاری کیے گئے بیان میں کہا تھا کہ تعینات افسران کو مارسیل، لیون، پاؤ، ٹولوز اور للی میں احتجاج کے دوران مختلف واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس واقعے نے فرانس کے بڑے شہروں کے ارد گرد کم آمدنی والے، نسلی طور پر مخلوط مضافاتی علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف تشدد اور نسل پرستی کی دیرینہ شکایات کو جنم دیا ہے۔
نوجوان کی موت کیسے ہوئی؟
ناہیل ایم نامی نوجوان کو منگل (27 جون) کی صبح ٹریفک اشارے پر رکنے میں ناکامی پر گولی مار دی گئی تھی۔
ناہیل مرسیڈیز اے ایم جی پر سوار تھے اور جب انہوں نے اشارے کے باوجود گاڑی آگے بڑھائی تو ایک پولیس اہلکار نے قریب سے ڈرائیور سائیڈ پر فائرنگ کی، جس کے بعد بائیں بازو اور سینے میں لگنے والی ایک گولی سے ان کی موت ہو گئی۔
Macron dances while France burns. pic.twitter.com/fSdUrx2iv7
— Jacqueline (@jacquilayton29) June 30, 2023
پولیس افسر کے وکیل کے مطابق: ’انہوں نے ڈرائیور کی ٹانگ کا نشانہ لیا تھا لیکن وہ ٹکرا گئے، جس کی وجہ سے گولی سینے کی طرف لگی۔‘
وکیل کا موقف ہے کہ ’ان کے موکل کی حراست مظاہرے پرسکون رکھنے کی کوشش کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔‘
فرانسیس صدر میکرون نے بدھ کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’فائرنگ ناقابل معافی ہے۔‘ انہوں نے فائرنگ کے بعد پھیلنے والی بدامنی کی بھی مذمت کی تھی۔
جمعے کی رات کو مارسیل کے میئر بینوئے پایان نے مرکزی حکومت سے اضافی اہلکار بھیجنے کی درخواست کی۔ اپنی ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’تشدد اور لوٹ مار کے مناظر ناقابل قبول ہیں۔‘
احتجاج کی اس تازہ لہر کے دوراب اب تک 200 سے زائد پولیس اہلکار بھی زخمی ہو چکے ہیں جبکہ مظاہرین درجنوں دکانوں کو لوٹنے کے علاوہ دو ہزار گاڑیوں کو نذر آتش بھی کر چکے ہیں۔
فرانس میں ہونے والے اس احتجاج نے سال 2005 میں ہفتوں تک جاری رہنے والی ملک گیر احتجاج کی یاد تازہ کر دی ہے جس کے بعد صدر یاک شیراک نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔
2005 کا احتجاج دو نوجوانوں کی کرنٹ لگنے سے اموات کے بعد شروع ہوا تھا جو ایک بجلی گھر میں پولیس سے بچنے کے لیے جا کر چھپے تھے۔