بلوچستان کے ضلع آواران میں فوجی آپریشن جاری ہے، جبکہ آواران اور کوئٹہ سے اطلاعات ہیں کہ پاکستان فورسز نے چار افراد کو جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز پاکستانی فورسز نے آواران کے علاقے لباچ زیارت ڈن میں چھاپہ مارکر تین افراد کو حراست میں لیا ہے۔ جبکہ آج صبح سویرے پاکستانی فورسز نے آواران کے علاقے پیرندر زیلگ کو گھیرے میں لے کر آپریشن شروع کردی ہے۔
آخری اطلاعات کے مطابق فورسز بڑی تعداد میں مذکورہ علاقے میں موجود ہے، جبکہ گھر گھر تلاشی جاری ہے۔ تاہم آج جاری آپریشن کے دوران کسی قسم کے گرفتاری یا ہلاکت کے اطلاعات موصول نہیں ہوئے ہیں۔
گذشتہ روز آواران سے لاپتہ ہونے والوں کی شناخت کماش دینار، زباد ولد سخی داد اور داد بخش ولد علی محمد نام سے ہوئیں ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لاپتہ ہونے والے دراسکی کے رہائشی ہیں جنہیں فورسز نے جبراً وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا تھا اور وہ اس وقت یہاں رہائش کررہے تھے جنہیں گذشتہ روز پاکستانی فورسز نے چھاپہ مارکر حراست میں لیا ہے۔
خیال رہے کہ لاپتہ ہونے والے کماش دینار کو اس سے قبل گیارہ فروری 2020 کو رات گئے آواران کے علاقے تیرتیج میں چھاپہ مارکر اس کے دو بیٹے محمد علی اور واحد سمیت حراست میں لیا تھا، جن میں علی محمد کو دوران حراست فورسز نے قتل کیا تھا۔
اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے نصیر ولد بائیان کی لاش توتک کے اجتماعی قبر سے بھی برآمد ہوئی تھی، جنہیں 2013 کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا۔
ادھر لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کہنا ہے کوئٹہ سے آواران کے رہائشی طالب علم اعظم ولد اللہ داد کو پاکستانی فورسز نے غیر قانونی حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔