کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف عید کے روز مظاہرہ ہوگا۔ ماما قدیر بلوچ

64

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5089 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر سیاسی سماجی کارکنان ملک سیف اللہ بلوچ، غلام سرور بلوچ نور خان بلوچ اور دیگر نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ فرزندوں کی انتھک پرامن جدوجہد اور قربانیوں نے آج ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کی ہے جو بلوچ جدوجہد جہد کے نام سے منسوب ہے، اس تحریک کے باصلاحیت کارکنان اور معتبر رہنما بلوچ جہدوجہد کو تمام تر ریاستی جبر تشدد کے باوجود بلوچ جہد کو مستقل مزاجی سے آگے بڑھا رہے ہیں یہ غیرت مند اور دلیر کارکنان ریاستی جبر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہوکر ریاستی عقوبت خانوں میں غیر انسانیت تشدد جھیل رہے ہیں۔

“ بلوچوں کی اغوا نما گرفتاری اور قتل عام 1948 سے لیکر آج جاری ہے بلوچ سپوتوں نے کبھی بھی اپنے دشمن کے سامنے سر نہیں جھکایا بلکہ ہمشیہ نبرد آزمارہے 1948 سے آج تک سامراجی قابضیں کے خلاف پرامن جدوجہد کر رہے لیکن 2000کے بعد بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی میں زبردست شدت آگئی ہے ۔”

ماما قدیر بلوچ نے کہاں کہ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین میں سے چند لوگوں نے ایف آئی آر درج کروایا اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پیٹشن داخل کیں سپریم کورٹ میں کافی عرصہ تک یہ کیس چلتے رہے لیکن کچھ عرصہ بعد سپریم کورٹ نے انہیں غیر اہم سمجھ کر بیج گیارہ کے حوالے کردیا ادھر بھی کوئی پیشرفت اور شنوائی نہیں ہوئی نہیں ہوئی تو جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی ہر روز احتجاج کے نتیجے میں بلوچ لاپتہ کے لیے ایک بہت ہی کمزور کمیشن قائم کی جس کے تین ممبران تو اتنے بوڑھے اور کمزور تھے کہ وہ صیح طور بائیکاٹ کا اعلان کردیا آج تک ان عدالتیوں اور کمیشنوں نے کوئی بھی بلوچ جبری لاپتہ افراد رہا نہیں کیا بلوچ لاپتہ افراد اور شہداء کی قربانیوں نے اس بات کو ثابت کردیا کہ پاکستان میں خفیہ اداروں متعدد اور حکمران ہیں۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ عید کے حسب معمول بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاجی ریلی نکالیں گے اس ضمن میں ہم تمام غیر مند بلوچوں اور انسان دوست حضرات سے کراچی اور کوئٹہ میں ہونے والے احتجاجوں میں شرکت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔