بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5062 دن ہوگئے۔ تربت سے سیاسی اور سماجی رہنماؤں یلان زامرانی، اللہ بخش بلوچ، نور بخش بلوچ، مجاھد سمیت دیگر افراد نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-
اس موقع پر وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کیمپ میں موجود رہیں-
کیمپ آئے وفد سے گفتگو میں ان رہنماؤں کا کہنا تھا بلوچستان میں ریاستی سفاکیت روز اول سے جاری ہے مگر کچھ مہینوں سے اس میں مزید شدت دیکھنے میں مل رہی ہے بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے انہیں ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز مظالم کا سامنا ہے جن میں بیشتر دوران تشدد دم توڑ جاتے ہیں پھر انکی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکے جاتے ہیں یا انہیں مزاحمت کار قرار دے کر فیک انکاؤنٹر میں شہید کیا جاتا ہے-
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر سے تنگ آکر خود کشی کرنے کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جیسا کہ حالیہ دنوں آواران میں ایک پرائیویٹ سکول استانی نجمہ دلسرد نے ایک ریاستی دلال کی مسلسل ہرساں ہونے سے دلبرداشتہ ہوکر اپنی جان لے لی تھی یہ خود کشی نہیں بلکہ قتل کے زمرے میں آتا ہے جہاں قاتل ریاستی سرپرستی میں آج بھی گھوم رہا ہے اور انکے گھر والوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں-
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ریاست نوآبادیاتی استحصال کی پالیسیوں کو ناکامیوں کو بھانپ کر اب نئے حکمت عملی بنا رہے ہیں –