نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے بلوچ قومی رہنماء نواب خیر بخش مری کی نویں برسی پر ریلی اور پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔
ریلی بلوچستان یونیورسٹی سے شروع ہوتے ہوئے سریاب روڈ کے رستے نیو کاہان شہدائے بلوچستان قبرستان پہنچ کر اختتام پزیر ہوئی۔ ریلی میں شامل مرد و خواتین نے شہدائے بلوچستان قبرستان پر فاتحہ خوانی کی اور شہداء کے مزاروں پر حاضری دے کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
ریلی کے شرکاء نواب مری کے مزار کے احاطے ریفنس منعقد کیا جس کا باقائدہ آغاز شہداء کی یاد میں خاموشی سے کیا گیا جس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ ایڈوکیٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کیے۔
پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم ایک ایسی شخصیت کو سلام پیش کرنے آئے ہیں جس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بڑی مشکل پیش آتی ہے، اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ بظاہر اس دنیا میں نہیں ہے، لیکن وہ روحانی طور پر ہمارے محفلوں میں، ہمارے دلوں میں ہے، ہمارے آرزوؤں میں اور ہمارے خوابوں میں بستے ہیں اور کہیں نہ کہیں آپ کو یہ محسوس ہوتا ہوگا وہ روحانی طور پر شاید آج بھی ہمیں دیکھ رہے ہیں، ہمارے افعال کو دیکھ رہے ہیں، ہمارے کارکردگی کو دیکھ رہے ہیں، وہی پیاری سی ان کی مسکراہٹ، وہی شگفتہ لب و لہجے میں گفتگو کرنے والا بظاہر خاموش ہوگیا ہے لیکن ان کے خیالات، ان کی بلوچ وطن سے وابستگی، ان کی جو آدرش تھے، جو خواب تھے وہ زندہ ہیں. کیونکہ خیالات کو موت نہیں آتی، فکر کو آپ زنجیریں نہیں پہنا سکتے۔
“جب ہم دیکھتے ہیں یا ہمیں نظر آتا ہے کہ کوئی قبضہ گیر، کوئی بھی غاصب، کوئی بھی اتھارٹی جب وہ کسی وطن کو اپنے بوٹوں تلے روندتا ہے تو لوگوں کو ایک چیز باور کرائی جاتی ہے کہ جو ہمارا مقدر ہے یہ ابدی ہے، جو کچھ ہمارے ساتھ ہوتا آ رہا ہے وہ ہمارےآباو اجداد کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے، وہ ہمارے آنے والے نسلوں کے ساتھ بھی ہوتا رہے گا لیکن تاریخ میں ایسے لوگ آتے ہیں گو کہ وہ ایک شخصیت ہوتا ہے، ایک فرد ہوتا ہے لیکن وہ تمام چیزوں کو رد کر دیتا ہے اور اگر ایک آدمی چاہے تو دنیا کی تصویر بدل کر دیتا ہے تو بابا مری ان شخصیات میں سے ایک ہے، جو عہد ساز رہے جو تاریخ ساز رہے۔”
منظور بلوچ نے مزید کہا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں، ہم بڑے نصیب والے ہیں کہ ہم بابا مری کے عہد میں جی رہے ہیں، ہم آج بھی ان کے عہد میں سانسیں لے رہے ہیں، اور انہوں نے اسی چلتن میں اسی مٹی کے ساتھ جو قسم اٹھائی تھی وہ واحد شخصیت ہے ہماری سیاست میں وہ آخر دم تک مٹی کے ساتھ جو اس کا وفا تھا، اس کا وعدہ تھا اس کو نبھایا۔
این ڈی پی کے مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ نے نواب مری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ27 مارچ 1948 سے آج تک بلوچ کا سب سے بڑا مسئلہ ایسے روشن خیال رہنماء کا تھا جو ایسا رستہ دکھاتا کہ جہاں سے گزر کر بلوچ اپنی منزل کو پہنچ پاتا۔ بابا مری ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اس دور میں قوم کی بہترین رہنمائی کی اور اپنے افکار، فلسفہ اور عمل سے اپنی سیاسی و ذاتی زندگی میں کبھی بھی ابہام نا چھوڑا وہ آخری وقت تک مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور انہیں پختہ یقین تھا کہ حالیہ بلوچ قومی تحریک اپنے مد مقابل کو ضرور شکست دے کر سرخرو ہوگا۔