عورتوں کو استعمال کرنا بند کرو ۔ حکیم واڈیلہ

1026

عورتوں کو استعمال کرنا بند کرو 

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

سوشل میڈیا ایک عجیب سا جہاں ہے، جہاں لوگوں کی رائے اکثر و پیشتر حالات و واقعات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں، جہاں ایک ہی طرز کے دو مختلف واقعات پر ایک ہی شخص دو مختلف رائے رکھتا ہے اور انکا دفاع کرتا بھی دکھائی دیتا ہے۔ سوشل میڈیا چونکہ انتہائی تیزی کے ساتھ جدید دور کی ضرورت بنتا جارہا ہے جہاں لوگ اظہار رائے سمیت اپنی نظریات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں، سیاسی نظریات، مذہبی نظریات، بائیں اور دائیں بازو کے نظریات، لبرل اور ایکسٹریمسٹ نظریات خواہ کوئی بھی نقطہ نظر ہو، وہ کسی نہ کسی طرح سوشل میڈیا پر دکھائی دیتا ہے۔

سوشل میڈیا واقعتاً ایک ایسا خوبصورت جھوٹ ہے جو اگر کسی انسان کو اپنی طرف پوری طرح سے متوجہ کردے تو وہ انسان حقیقت سے دور ہوتا چلاجاتا ہے اور سوشل میڈیا کی آرٹیفشل دنیا کو ہی اپنی دنیا سمجھ کر وہاں دکھائی دینے والے خیالات، خواہشات، مشاہدات اور ہر ایک مستند اور غیر مستند نقطہ کو حقیقت سمجھ کر ایک ایسے ریس میں پڑ جاتا ہے جو شاید ہی کسی منزل کو جاتی ہو۔

سوشل میڈیا پر اظہار خیال، اظہار رائے، مہم چلانا اپنی بات دنیا تک پہنچانا یقیناً ایک مثبت عمل ہے اور یہ امید رکھنا کہ ہوسکتا ہے کہیں کوئی ان داستانوں کو سُن کر ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے آپ کی جدوجہد میں آپ کے مہم میں آپ کا ساتھ دیکر آپ کی کمزور آواز کو مضبوط کرنے کا سبب بن جائیگا تو یقیناً یہ نہ صرف ایک مثبت سوچ ہے بلکہ اس سے آپ اپنے پرچار کو، اپنے پیغام کو، اپنی جدوجہد کو، اپنے نظریات کو اپنے جذبات کو، اپنے شعور اور نقطہ نظر کو ایک ایسے انداز میں بیان کرینگے جسے آپ صرف اپنی قوم، خاندان، قبیلے تک محدود نہیں کرنا چائینگے بلکہ آپ کی آڈینس عالمی ہوگی، آپ کا پیغام عالمی ہوگا، آپ کا نظریہ عالمی ہوگا۔

لیکن آپ کی حقیقی جدوجہد جو ہمیشہ سے زمین سے جُڑی تھی وہ زمین سے ہی جُڑی رہیگی، آپ کا میدان عمل آپ کے زمینی حقائق، آپ کی مشکلات، آپ کو درپیش چیلنجز، آپ کے سامنے رکھی جانے والی رکاوٹیں، آپ کیخلاف اٹھنے والی آوازیں، آپ کو ڈرانے دھمکانے والی قوتیں، آپ کے گھروں میں گھس کر آپ کے باپ، بھائی، شوہر یا بیٹوں کو لاپتہ کرنے والے، گھر میں مردوں کی غیر موجودگی میں عورتوں کو لاپتہ کرنے اور ان سے بد تہذیبی سے پیش آنے والے تمام تر واقعات سوشل میڈیا پر نہیں حقیقت میں پیش آنے والے ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو روزانہ کی بنیادوں پر بلوچستان میں جاری ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جنکا شکار کبھی برمش اور ملکناز بنتی ہیں۔ تو کبھی کلثوم، کبھی ڈیرہ بگٹی کی بلوچ خواتین بنتی ہیں تو کبھی کوہلو اور کاہان کی بلوچ مائیں، کبھی کراچی میں احتجاج کرتی بلوچ بہنیں بنتی ہیں تو کبھی کوئٹہ کی بلوچ بیٹیاں یہ ایسے سنگین واقعات ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر بیان کیا جاسکتا ہے۔ ڈیبیٹ کیا جاسکتا ہے، لیکن محسوس نہیں کیا جاسکتا، جیا نہیں جاسکتا، اس درد، غم اور غصے کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا جو آگ بنکر لوگوں کے دلوں میں جل رہی ہے جو ایک ایسا والکینو بن چکا ہے جو کبھی پٹتا ہے تو اس کا دھماکا انتہائی نوعیت کا ہوتا جس کی شدت کو بھی صرف حقیقی دنیا میں گراونڈ پر محسوس کیا جاسکتا ہے ناکہ سوشل میڈیا پر۔

حالیہ دنوں بلوچ لبریشن آرمی کے ایک فدائی سمعیہ قلندرانی بے تربت میں پاکستانی فورسز کے کانوائے پر حملہ کیا جس میں ہدف بقول بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان کے بہت اہم تھا، سمعیہ قلندرانی کے حملہ آور ہونے کے بعد سے لیکر ابتک سوشل میڈیا پر ایک مخصوص سوچ کی عکاسی کرنے والے چند لوگوں کی جانب سے تنقید کے نام پروپیگنڈہ کی شروعات کی گئی ہے۔

کہا گیا کہ یہ طریقہ درست نہیں، عورتوں کو جنگ میں مت گھسیٹو، اور سب سے بڑھکر یہ کہنا کہ عورتوں کو اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرنا بند کرو۔ ان تنقید نما کنفیوژن پیدا کرنے والی باتوں کا اگر آپ مشاہدہ کریں اور پھر سوشل میڈیا پر ان اکاؤنٹس کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ اندازہ ہوگا اس تنقیدی عمل میں شامل افراد کی اکثریت ویسے تو اس بات کی وکالت کرتے نہیں تھکتے کہ عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں، وہ فیمنزم کا جھنڈا اٹھائے دِن رات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عورت مرد کے برابر ہیں، عورت کو آزاد ہونا چاہیے، پدرشاہی نظام سے آزاد ہونا چاہئے، سماجی اور سیاسی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہیے، گھریلو اور روایتی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہیے لیکن حیران کُن طور پر جب کوئی عورت سماجی پابندیوں، سیاسی پابندیوں اور روایتی پابندیوں سے بالاتر ہوکر آزادانہ طور پر ایک شعوری عمل سے گزر کر ایک دلیرانہ فیصلہ کرتی ہے تو عورتوں کے حقوق کے ضامن یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اس عورت کو استعمال کیا گیا۔ اس عورت کو گمراہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ عورت خود کرہی نہیں سکتی بلکہ عورت کو ورغلایا گیا ہے۔

یہاں ایک سنجیدہ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب عورت کو آپ آزاد، برابر، خودمختار، فیصلہ ساز، اور اپنی مرضی کا مالک بنتا دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی اس سوچ کو بدلنا ہوگا کہ عورت اپنی آزادی اپنی برابری اپنی خودمختاری اپنے فیصلوں کو آپ کی مرضی اور منشاء کے مطابق کریگی، کیونکہ ایک آزاد عورت یہ حق محفوظ رکھتی ہے کہ وہ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اقدام اٹھا سکیں اور فیصلہ کرسکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں