سیاسی اور ادبی بددیانتوں کا تحریک مخالف بیانیہ
تحریر: میروان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پچھلے کچھ سالوں سے جب بلوچ آجوئی جہد برسوں کی روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر آج کے ضروریات کی بنیاد پہ سامنے آیا تو اس پہ دنیا سمیت بلوچ خود بھی ششدر رہ گئے۔ بہت سارے لوگ مایوسی کے عمیق گہرائیوں میں غرق تھے تو کوئی دلبرداشتہ ہوکر روز گھٹ گھٹ کے مر رہا تھا، وہیں ایک ایسا موڑ آیا جس نے لاکھوں لوگوں کو زندہ رہنے کے نئے جذبے دیے۔ غلامی میں غرق انسانوں کو آزادی کے نئے شرف سے روشناس کرایا۔ پچھلے کئی برسوں کی تجربات سے گزرنے کے بعد جہاں بلوچ نے بہت کچھ سیکھا وہیں عالمی منظرعامہ بھی تیزی کے ساتھ بدلا۔ موجودہ تحریک جب چل پڑی، تو دنیا میں سامراجی طاقتوں نے نئے بیانیے کے ساتھ اپنے عزائم کو تشکیل دیئے ۔ اور یہ بیانیہ وار آن ٹیرر کے نام پہ پھیلایا گیا۔
ایشیا سے لیکر افریقہ اور عربستان تک انسانی خون کی ہولی کھیلا جانے لگا۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ اور روس جب سرد جنگ کے بعد مدمقابل ہوئے تو یہ بیانیہ خوب ترقی کرنے لگا۔ جہاں کہیں انسانی آزادی کا نام لیا جانے لگا، وہاں انہی طاقتوں اور ان کے لے پالکوں نے دہشت گردی کی نئی تعریفیں ترتیب دیں۔ جمہوریت، جدیدیت، انسانی حقوق، صنفی برابری وغیرہ وغیرہ کے نئے ڈیفینیشن یورپ اور امریکہ سے سج دھج کے محکوموں کے منہ میں ٹھونسے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے محکوم، ظالم اور ظالم مظلوم لگنے لگے۔ عراق اور افغانستان، شام او لیبیا نئے جنگی اکھاڑہ بنے۔ امریکہ، روس، یورپ سینکڑوں انسانوں کو ایک ہی دن میں موت کے گھاٹ اتارتے گئے لیکن کسی کو بھی یہ دہشت گردی، انسان کُش نہیں لگا، کیونکہ سامراجی تعریف میں صدام حُسین، طالبان، اور قذافی دہشت گرد تھے۔ انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کے سبھی پیامبر خاموش تھے۔ ٹھیک یہی ڈیفینشن دیر سے سہی مگر ہمارے لوگوں تک پہنچے۔ ریاست، این جی اوز اور دوسرے سامراجی طاقتوں میں ان کا بیانیہ خوب بکنے لگا۔ کسی کو ایوراڈز سے نوازا گیا تو کچھ کو بیرون ملک کے ویزے بھی ملے۔ کچھ تحریک کے اندر رہ کر بھی دونوں طرف کھیلنے لگے بظاہر آزادی پسند، بلوچ دوست، مگر بیانیہ سامراجوں والا۔ دونوں طرف خود کو قابل قبول بنانے کیلیے انہوں نے خوب قوم کو بیوقوف بنائے رکھا ۔ مگر یہ رنگ جلد ہی بکھرنے لگا جب بلوچ تحریک نئے ڈگر پہ چل پڑا۔
ضرورت ہے کہ بلوچ اب ان کرداروں کو بے نقاب کرے۔ ہم انتطار میں تھے کہ شاید بلوچ تحریک سے جڑے ادارے اس بابت عوامی آگاہی سمیت ان کرادروں کو بےنقاب کریں گے، مگر اس حوالے سے میری نظروں میں ایسا کچھ نہیں گزرا، سوائے جنرل اسلم بلوچ کے ایک محدود انٹرویو کے، مگر وہاں بھی جنرل نے سخاوت سے کام لیا۔ ان سبھی کرداروں نے مختلف ماسک پہن رکھے ہیں سیاسی حوالے سے کمزور بلوچ عوام جلد ان کے جھانسے میں آتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ سیاسی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں تو کچھ انسانی حقوق کے کارکن وہیں کچھ خود ساختہ دانشوری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سبھی کو دشمن کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، ریاست کی جانب سے پھیلایا جانے والا ریاستی بیانیہ کہیں نہیں دکھتا۔ لیکن بلوچ قومی تحریک پہ چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
مثال کے طور پر بلوچ مسلح مزاحمت ہمیشہ ان کا ٹارگٹ رہا ہے بلوچ عوام میں کنفیوزن پھیلانے سمیت تحریک کے مسلح جہد سے منسلک اداروں کے خلاف بداعتمادی پیدا کرنے کا انہیں بس موقع کی تلاش ہے۔ شروع شروع میں ان کا بیانیہ تحریک میں مختلف اداروں کے آپسی مسائل تھے بعد میں چند تنظیموں کے مختلف کاروائیوں پہ ان کے تنقید رہے مگر یہ سب اس بنیاد پہ درگزر کیے گئے کہ تنقید کرنا ان کا حق ہے۔ بددیانت سیاست دانوں اور دانشوروں نے نواب خیر بخش سے لیکر تحریک کے سبھی کرادروں پہ نقطہ چینی کی۔ انہیں نواب صاحب ہٹلر، نوروز خان قبائلی ، نواب بگٹی گیس رائلٹی، پرنس عبدالکریم خان دکھتا ہے اور انہیں مکمل حق ہے کہ وہ بلوچ جہد کے بیج بونے والے کرادروں کو مسخ کریں۔ نام نہاد مڈل کلاس جہاں بلوچستان میں سردار کو بلوچ تحریک مخالف گردانتے ہیں وہیں انہیں مکران میں موجود سیاسی سردار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ ڈاکٹر مالک، ظہور بلیدی وغیرہ ان کے طبقے سے ہیں ان کی تحریک مخالف سبھی بدنما کردار ان کی نظر میں پارسا ہیں۔ ایک دفعہ ایک دوست سے ہم نے پوچھا کہ پارٹی کیونکر نیشنل پارٹی کیلیے نرم گوشہ رکھتا ہے کہنے لگا پارٹی سبھی بلوچ قیادت سے تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے ماضی میں ہم نے پارلیمنٹ پرست پارٹیوں کے خلاف کیمپین کی جو کہ غلط ثابت ہوا ہے۔ یہ صاحبان آج کل ٹھیک ٹھاک سوشل میڈیا پہ ایک دوسرے کے ساتھی یارانہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب طبقات کےنام پہ ایک نئے بیانیے کو نوجوانوں میں پھیلانے کا آغاز ہوا ہم نے انہی صاحبان کو سپیس میں مدعو کرتے پایا حالانکہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی نظریہ کن طلبا تنظیموں کے ساتھ ملاپ رکھتا ہے یا گراؤنڈ میں ان کے خاص صاحبان کا اثر کس حد تک ہے۔ وہیں ایک میگزین کا پورا شمارا سوشلسٹ چیرمین کے کالموں سے بھرا گیا۔ کیونکہ یہ تنظیم بھی مڈل کلاس والے بیانیے کا راگ الاپتا ہے اور سردار اور تشدد مخالف ہے اس لئے ان بددیانت دانشوروں اور سیاسی رہبروں کا ان کے ساتھ خوب بنتی ہے۔
گراؤنڈ میں تحریک کے مسلح محاذ کی ہرزہ سرائی انہی کے سپرد ہے جبکہ سوشل میڈیا اور دیگر فرنٹ دانشوروں اور رہبروں کے زمے ہیں۔
مثال کے طور پر یورپ زدہ سیاسی رہبروں اور دانشوروں کو مسلح محاذ کے کئی ایک طریقہ کار پہ اختلاف ہے ان میں ڈیٹھ سکواڈ پہ حملے بھی شامل ہیں کچھ عرصے قبل مسلح تنطیم کے کاروائی میں ایک عورت نشانہ بنا، ان صاحبان کا انسانیت والا رگ چھولیں مارنے لگا، مگر دوسری جانب گچک، مشکئے، ڈیرہ بگٹی میں انہی ڈیتھ اسکواڈ جب بلوچ عورتوں کا چادر چھین لیتے ہیں، بلیک میل کرتے ہیں، کیمپوں میں سپلائی کرتے ہیں، کئی ایک خودکشی کرتے ہیں وہاں یا تو چُپ سادھ لیتے ہیں یا ان واقعات کو پدرشاہی کا نام دیکر ریاست کا کام آسان کرتے ہیں ان صاحبوں کو انسانی حقوق اور صنفی برابری بہت عزیز ہیں لیکن ایک محدود دائرے میں ، ان کو آپ بلوچ پہ ہونے والے مظالم کے خلاف چلنے والے احتجاجوں میں نہیں دیکھیں گے، گوکہ ان احتجاجوں کے منتظمین بلوچ خواتین ہیں مگر ان کا فیمنزم اس ٹائم سوجاتی ہے لیکن جب بلوچ کچھ کرتے ہیں تو ان کو پلے کارڈ اٹھانے کا شوق چڑھ جاتا ہے اور تو اور ریاستی جبر سے مجبور بلوچ بیٹی خود کی جان لیتی ہے یہ یورپ زدہ لوگ اسکو پدرشاہی قرار دیتے ہیں
کہنے کو یہ دنیا جہاں کے قوانین، علم زانت سے لیس ہیں تبھی یہ خود کو عالم سمجھ کر ہمیشہ اپنی رائے دینے اور اسکو سچ ثابت کرنے کی آخری کوشش کرتے ہیں اگر ان کے بیانیے کا خلاف کیا جاتا ہے تو ان کا ہمیشہ والا شکوہ اور رونا دھونا شروع کرتے ہیں کہ جی بلوچ تحریک میں بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے تنقید برداشت نہیں کرتے فلانا فلانا، یا پھر فیک آئی ڈیز یا ٹرولنگ کا نام دیکر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
صاحب جب آپ کے منہ میں جو آتا ہے وہ کہہ دیتے ہو، چاہے اس سے کسی کے جذبات کو کتنی ہی ٹھیس کیوں نہ پہنچتا ہو، آپ اس کو اپنا حق جتاتے ہو، ٹھیک اسی طرح ان کا بھی حق ہے کہ آپ کے بیانیے کے مخالف پر اپنی بات رکھیں تم کہو تمھارا اظہار رائے کا حق، اگر آپ کے بیانیے کے مخالف کوئی بات رکھے تو وہ ٹرول برگیڈ۔
آج سے چند سال قبل جب شورپارود میں مسلح محاز میں دو ساتھی شہید ہوئے تھے تو انہیں موقع ملا “ تنظیم ان جیسے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ریکروٹ کرکے ان کے زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے” ٹھیک یہی بیانیہ الاپنے لگے۔ آپ شہیدوں کی بے حرمتیں کریں، ان کے شہادت کو متنازعہ بنائیں، کنفیوژن پھیلائیں، شہدا کے قومی فرض کو جذباتی پن، رومینٹسزم وغیرہ کا نام دیں، آپ کا اظہار رائے، مگر لاکھوں بلوچوں کے لئے خون بہانے والوں کے قربانی کے خلاف اس طرح کے بیانیے پھیلانے سے جن جن کی دل آزاری ہوتی ہے اس کا خیر ہے۔؟ کیوں یہ اظہار رائے صرف آپ ہی کیلیے کیوں۔؟ آپ جنگ سے بھاگ سکتے ہو اسکی قیمت ادا کرنے سے ڈرتے ہو یا میری طرح مسلح محاز آپ کے وس و واک سے باہر کی چیز ہے، سمجھ سکتے ہیں مگر یہ پرنور چہرے، انقلاب و آزادی کے متوالوں کی علمی اور انقلابی نطریہ و قربانی کا مزاق اڑانے کا حق آپ کو ہرگز نہیں۔ آپ چاہے کچھ بھی ہوں، کتنا ہی بڑا سیاست دان یا دانشور ہو، لیکن ہمارے شہدا کے عظیم قومی شعور کے تذلیل کا حق آپ کو ہرگز نہیں۔ ہمارے لوگوں نے اس بیانیے کے خلاف کچھ نہیں لکھا مگر محمد خان داؤد نے “ شعور کی توہین مت کرو” کے نام سے آرٹیکل لکھا تھا۔
بات یہیں تک نہیں رُکتا، پچھلے ہی سال ایک بلوچ جہدکار دشمن حملے میں شہید ہوتا ہے ان تحریک مخالف سوشل میڈیائی دانشوروں کو نہ جانے کیسے گمان آتا کے کہ تنظیم کم عمر بچوں کو مسلح جہد کا حصہ بنا رہا ہے ان کا بیانیہ سامنے آتا ہے کہ ان کم عمر بچوں کے کھیل کود کا عمر ہے ان کو محاذ کا حصہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ انہیں پڑھانا چاہیے۔ مگر ان کو کون سمجھائے کہ دنیا بھر میں عسکری محاذ کیلئے عمر کی حد اٹھارہ سال ہے اور آج تک ہم نے نہیں دیکھا کہ بلوچ تحریک میں اس سے کم عمر کسی کو محاز کا حصہ بنایا ہو۔ جس جہدکار کو یہ دانشور کم عمر قرار دے رہے تھے وہ شعوری طور پر اور جسمانی طور پر ان دانشوروں سے عمر میں کہیں زیادہ بڑا تھا۔ اپنے اچھے اور برے، دشمن دوست کی تمیز اسے تھا۔ وہ محاز کا حصہ اپنے مرضی سے بنا کسی نے گھر سے انہیں زبردستی نہین اٹھایا تھا۔ باقی یہ جنگ ہے دشمن کی طرف سے آنے والی گولی یہ نہیں دیکھتا کہ یہ کم عمر ہے یا بڑا کمانڈر ہے۔ اس کیلیے بلوچ دشمن ہے یہ عمر اور جنس کی لیکیریں ہمارے دانشور کھینچتے ہیں دشمن کئلیے بلوچ ہونا ہی کافی ہے ان دانشوروں سے کوئی کہے کہ وہ یہ نصیحت بلوچ دشمن کو بھی کریں، وہ بھی آٹھویں پاس بچوں کو ایف سی یا آرمی یا پھر ڈیتھ سکواڈ میں ریکروٹ نہ کرے۔ یا اس سے کہے کہ حیات اور احتشام جیسے نوجوانوں کو گولیوں سے نہ بھونے، یا پھر شہید یاسمین اور چاکر جیسے بچوں کو اپنی وحشت کا شکار نہ بنائے۔مگر وہاں زبان گنگ پڑتا ہے ان کو لیکچر صرف بلوچ تحریک کو ہی دینے ہیں۔
شاری بلوچ کی عظیم قربانی کو جس طرح ان سوشل میڈیائی سیاست دانوں، دانشوروں اور فیمنسٹوں نے تذلیل کا شکار بنایا وہ سب کے سامنے ہے۔ “ عورت کو جنگ میں مت گھسیٹو” اس سے بلوچ خواتین پہ دشمن کا گھیرا سخت ہوگا، سرفیس پہ سیاست کرنے والے خواتین ریاستی تشدد کا نشانہ بنیں گے وغیرہ وغیرہ ان کے بے ہودہ جملے تھے کسی نے کہا کہ بلیک میل کیاگیا، کسی نے کہا برین واش کیا گیا، تو کسی نے پتا نہیں کونسا کہانی گھڑ لیا۔ فدائین کی بے توقیری دیدہ دلیری سے کیا گیا۔ بلوچ عوام نے خاموشی سے سب سہہ لیا۔ ان سے کوئی تو کہے آپ عورتوں کی برابری چاہتے ہیں بقول آپ کے بلوچ فرسودہ روایت بلوچ عورتوں کے پاؤں کی ہتھکڑیاں ہیں وغیرہ وغیرہ تو اب جب ایک جہدکار قومی جدوجہد میں خود کو فدا کرتا ہے اس تحریک کو اپناتا ہے( آزادی جو سب بلوچوں کیلیے ہے) کی خاطر مسلح جہد کا حصہ بنتی ہے تو تمھیں کیوں تکلیف ہوتی ہے آپ کو خوش ہونا چاہیے
جہاں باقی دنیا میں میری جسم میری مرضی کے فرسودہ نعرے لگا رہی ہے وہیں بلوچ خواتین کی شعوری سطح اس قدر بلند ہے کہ وہ فدائین بنتی ہے۔ کرد عورتوں کی “ جن جیان آزادی” تمھارے لیے خوشنما اور باعث تقلید مگر بلوچ عوت عملی دروشم میں اس نعرے کا اظہار کرتی ہے وہاں “ عورتوں کو جنگ میں مت گھسیٹو” یہ منافقت نہیں تو کیا ہے۔ فدائی سمعیہ بلوچ کے فدائی حملے کے بعد انہوں نے کچھ زیادہ ہی رنگ دکھانا شروع کیا۔ نام نہاد سیاست دان، دانشور، فیمنسٹ دشمن کی زبان بولنے لگے۔ یہ کل ہی کی بات ہے کس نے کیا کہا کیسا زبان استعمال کیا، کس طرح شہید کی توہین کی گئی کس طرح تحریک کے ایک بڑے فرنٹ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی سب کے سامنے ہے۔ اس کے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تحریک مخالف کرداروں، یورپ زدہ سیاست دانوں ، دانشوروں ، نام نہاد انسانی حقوق کے کارکنوں ، فیمنسٹوں اور طبقوں والوں کو بےنقاب کیا جائے۔ جس طرح یہ لوگ ہر طرح کی مغلظات کو اظہار رائے ازادی، تنقید کا حق، اختلاف رائے کا نام دیتے ہیں ٹھیک اسی طرح ان کے بیانیے کو کاؤنٹر کرنے کا حق ہر بلوچ کو ہے، پھر چاہے یہ ہمیں ٹرول برگیڈ کہیں یا فیک آئی ڈیز، ہمیں ان بددیانت سیاست دانوں اور نام نہاد سوشل میڈیا دانشوروں کے خلاف اب کھل کر سامنے آنا ہوگا۔ ان کے قومی تحریک مخالف بیانیے کے خلاف ہمیں لکھنا ہوگا۔ بولنا ہوگا۔ نہیں تو یہ لوگ تنقید اور اظہار رائے کے نام پر بلوچ تحریک اور اس کی خاطر لہو بہانے والے شہدا کے خلاف ایسا محاذ کھول بیٹھیں گے شاید ہم اسے روک نہ پاسکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں