سمعیہ قلندرانی اورہمارےسیاسی اقدار
تحریر: میران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سیاست کی بدصورتی کہیں یا خوبصورتی مسلسل عمل اور جستجو علم بہ یک وقت محوسفر رہتے ہیں،ایک کی کمی دوسرے پر اثرانداز رہے گا،جس سےعلم اور عمل دونوں ہی اپاہج رہیں گے، ہوسکتا ہے یہ فارمولہ electoral politics میں لازمی قرارنہیں دیاجاسکتاجہاں سیاست کامحور صرف اور صرف الیکشن جیتنا ہے،لیکن انقلابی سیاست کو اس فارمولہ سے الگ رکھنا ناممکن ہے۔ اگر آپ علم کو سیاسی عمل سے دور رکھیں گے غیریقینی اعمال کے ساتھ ساتھ غلطیوں کا مسلسل دورانہ لازمی امر بن جائے گا اگر آپ عمل کو علم سے جدا رکھیں گے چھوٹی سے چھوٹی خیر کی جانب تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ انسانی تاریخ میں جہاں علم ابھر کر سامنے آیا ہے وہیں پر عمل کرنے والوں کی کمی نہیں رہی ہے، جنہوں نے تبدیلی کا عمل برقرار رکھا ہواہے عمل اور علم کی یہی جڑت انقلابی جدوجہد میں بھی لازمی ہےلیکن آج بلوچ سیاست میں تقریبا علم کی کمی ہے وگر نا جو بنیادی انقلابی و سیاسی اقدارسو سال پہلے انقلابیوں نے زیرغور لائے ہیں جو خوبصورت لفظوں کی شکل دنیا کو پہنچا چکے ہیں وہی اقدار سے سوسال بعدبھی ہم لاعلم ہیں۔اسکا مطلب تو یہی ہوا ہم علم کی جستجو سےبہت دور ہیں،ایسا ہوہی نہیں سکتا جستجو علم بھی ہو اور لاعلمی بھی ہو۔ ان سے دنیا کی انقلابیوں کے اقدارعلم کی بحث کرنا فضول ہے جو خود کی اقدار کے فاونڈیشن کو بھول چکا ہے۔
شہید گلام محمد کے سیاسی اقدار کےہم دعوے دار ہیں ان کی سیاست کا سب سےاہم نقطہ اختلاف اور متعلقہ اداروں میں بحث و مباحثہ کی سمجھ اور عمل کا رہا ہے، جس کا بلوچ سیاسی ورکرز نے عملاً مشاہدہ کیا ہے اسکی شہادت کو چودہ سال ہی نہیں گزرے ہیں اس کے سیاسی اقدار ہی بھول گئے ہیں ان بالا دوسطروں کا قطعی مقصدنہیں گلام محمد کے اصولوں سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا بےشک گنجائش ہے اگر ان دو بنیادی نقطوں پر گلام مھمد سے اختلاف رکھتے ہیں اور ساتھ ہی آپ اداروں کے اندر بحث ومباحثہ اور اختلاف تصور کا پرچار کرتے ہیں تو اس کا مطلب کے ان دونوں بنیادی نقطوں میں ناچاہتے ہوئے بھی غلام محمد کے زبانی کلامی ماننے والے ہیں اگر عملاً نہیں ہیں۔
بلوچ انقلابی سیاست کو اس زاویہ نظر سے پرکھنا شاہد ہوا چاہتا ہے، جہاں ایک بحث چھڑ چکی ہے پہلی بار نہیں ہے کہ ایسے مباحث نے سراٹھایا ہے اگر یہ کہیں کہ اسکی شروعات 2018 سے ہوا تقریباً غلط نہیں ہوگا،لیکن اس میں مدوجزر آتے رہے ہیں کچھ وقت میں یہ بحث کچھ لوگوں تک محدود رہ کر ختم ہونےکی نہج تک پہنچ گیا تھا لیکن مجید بریگیڈ کے تربت حملہ سے دوبارہ سر اٹھارہاہے،اس مرتبہ بحث کا محور اور دیکھنےکی نظر کل سےمختلف ہے کل کے بحث و مباحث ادارجاتی سیاست تعلق نہیں رکھتا تھا ، لیکن آج کا بحث رکھتا ہے۔ جیساکہ تاج اورلطیف جوہر خودکسی ادارےکاپابند نہیں سمجھتے تھے لیکن حمل حیدر خود کوپارٹی کا پابندس سمجھتا ہے۔بلوچ سیاسی سرکل ان بحث و مباحث کودو زاویہ نظر سے دیکھا جاسکتا ہے، جو سوال اٹھارہاے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں یہی تو اظہار خیال کی آزادی ہے،ہمیں اختلاف رکھنے کی اور کھلم کھلم اختلافات کے اظہار کی آزادی ہےدوسری طرف جو ان اعمال کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ یہی سمجھتے ہیں اظہار خیال کی بات کرنے والے بلوچستان کی حالات سے واقف نہیں ہیں یہ فضول خیالی اور نامعقول سوچ رکھتے ہیں۔
ایک نے عمل کیا اور دوسرے نے مخالفت کی ہے، سوال یہ نہیں ہونا چاہیے اختلاف نہ ہو جس طرح غالباً قاضی ریحان نے کہا، اختلاف کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے،اگر قاضی نے یہ کہا ہوتا کہ اختلاف قدرتی عمل ہے اسے سجمھنے کی ضرورت ہے،تو زیادہ بہتر ہوتا اور ساتھ ہی تقریباْ قاضی یہ کہنا بھول گئے ہونگے اختلاف اور نقطہ چینی میں فرق ہونا چائیے، یا اپنے ادارہی سنگت کو شلٹر مہیاح کررہے تھے کیونکہ جہاں اختلاف ہوتا ہےوہی انقلابی سنگتی برقرار رہتی ہے، لیکن جہان نقطہ چینی ہوتی ہے وہاں سنگتی کا خاتمہ اور گالی گلوچ کاہونایقینی ہےایک نے پہل کی ہے سوشل میڈیاکا چناو کیااوردوسرےکاردعمل قدرتی عمل ہے ۔ انقلابی اداروں سے تعلق رکھنے والے متعلق پلیٹ فارم کے چناو کے بجائے اپنی زاتی اظہار خیال کو ترجیح دیں اس کا مطلب یہی ہوا کہ اظہار آزادی نیولبرل تصور سے انقلابی اداروں کی بنیادی تصورات جو سینٹرل ڈیموکریسی پر منہج ہےکو خلط ملط کرکے انقلابی تصورات کاپارہ پارہ کررہے ہیں،جہان تک لبرل تصورات کا تعلق ہے وہ جمہوری مرکزیت میں پنپ نہیں سکتے، اگر پنپ گئے تو سنٹرل ڈیموکریٹ اداروں خاتمہ شروع ہوتا ہے، بذریعہ سوشل میڈیا بے مہارآزادی کو اظہارآزادی کا ٹیگ لگاکر اختلاف کا نام دینا نقطہ چینی کے زمرے میں آتا ہے اور جہاں نقطہ چینی ہو وہان گالی گلوچ لازمی امر بن جاتاہے چاہتے ہوئے بھی کوئی نہیں روک سکتا لیکن گالی گلوچ کو جواز بھی فراہم نہیں کیا جاسکتا اور پھر نقطہ چینی کو اختلافات کا نام دے کر گلہ کرنا فضول ہے۔
اگرکل لطیف ،تاج اور آج حمل حیدریا کوئی اورجواس مباحث سے تعلق رکھتاہے اسے اظہار آزادی سے تشبیہ دے کر خود کو اختلاف رائے کے زمرے میں شامل کرنا چاہیتے تھےیا ہیں یقیناً انہیں انقلابی سیاست کو دوبارہ زیرغور لانے کی ضرورت ہے،کم ازکم گلام محمد کو پڑھنے کی ضرورت ہے کل والوں کا کچھ کہ نہیں کہہ سکتا لیکن آج والوں کو اس بات کا ادراک لازماً ہوگا کہ انقلابی اداروں میں رہ کر آپ اس اداروں کے متعلقہ فورم میں اپنی سیاسی اختلاف رائے کا اظہار کرسکتے ہیں یہی انقلابی اور سینٹرل ڈیموکریٹک اداروں کا بنیادی essence ہے و گرنا اس کے برخلاف آپ دنیا کسی بھی انقلابی سرکل میں قابل قبول نہیں رہینگے کیونکہ انقلابی سیاست کا محور ادارے ہیں اگر ہر کوئی اداروں بالاتر سے ہوکر اپنے خیالات کا اظہار شروع کرے تو بے مہارآزادی جنم لیتی ہےجس سے اداروں کا ہونا یا نا ہوناایک برابرہے، اگر ادارے نہیں رہے تو دنیا کی تاریخ میں ابھی تک ایساکوئی ایک انسان پیدا نہیں ہوا ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ وہ اکیلا کسی مظلوم قوم کو آزادی دلاسکےگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں