سمعیہ ایک تاریخ ہے – دودا بلوچ

446

سمعیہ ایک تاریخ ہے

تحریر: دودا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سمعیہ بلوچ ایک ایسا نام ہے جو تاریخ میں لکھا جائے گا۔ وہ ایک نوجوان، باصلاحیت اور پڑھی لکھی لڑکی تھی جس نے اپنی مادر وطن کے لیے قربانی دینے کے عمل میں حصہ لیا۔ میرے الفاظ اس کی بہادری اور افعال کو مناسب طور پر بیان نہیں کرسکتے ہیں، لیکن میں ان کے کردار کی بے شمار تعریف کرتا ہوں۔ شاری بلوچ کے قربانی کے اقدام کے بعد، سمعیہ نے بلوچ جدوجہد میں ایک اور اہم سنگ میل کا اضافہ کیا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا کردہ ایک خوبصورت اور قیمتی تحفہ ہے۔ کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا، اور ہر کوئی ایک خوبصورت اور پرامن زندگی کا خواب دیکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ہم بیمار پڑتے ہیں تو ہم اللہ تعالیٰ سے جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔ تاہم، سمحیہ بلوچ نے ان تمام خوبصورت چیزوں کو ایک طرف رکھ کر بلوچستان کی آزادی کے لیے خود کو قربان کردیا۔ وہ جانتی تھیں کہ بلوچستان کے لیے امن اور آزادی کا واحد راستہ مادر وطن کے لیے قربانی ہے۔ جب آپ کی شناخت اور بقا کا سوال پیدا ہوتا ہے تو آپ تمام حدیں پار کر جاتے ہیں کیونکہ ہر کوئی اپنی مادر وطن سے تعلق رکھتا ہے۔ مادر وطن سے زیادہ قیمتی اور اہم کوئی چیز نہیں، یہی وجہ ہے کہ سمحیہ نے بلوچستان کی جدوجہد میں حصہ لیا اور اپنی جان قربان کی۔ سمعیہ نے ایک پرامن اور آزاد بلوچستان کے لیے اپنی جان دی اور اب یہ ہر بلوچ کا فرض ہے کہ وہ اپنی مادر وطن کے لیے لڑیں اور اس جنگ میں حصہ لیں۔ ہماری جدوجہد کے ذریعے، ہم صحیح معنوں میں زندہ رہیں گے۔

یہ صرف بلوچ خواتین ہی نہیں جو خود قربانی کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں خواتین اپنی مادر وطن کے دفاع کے لیے ایسے اقدامات میں حصہ لیتی ہیں۔ وفا ادریسی اسرائیل فلسطین تنازعہ میں پہلی خاتون خودکش بمبار تھیں، ثنا مہیدلی نے 16 سال کی عمر میں جنوبی لبنان پر اسرائیلی قبضے کے دوران لبنان کے شہر جیزین میں اسرائیلی قافلے پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا، اور تامل اور کرد خواتین نے فدائی حملون مین حصے لیے تھے۔ دنیا بھر میں عورتیں اور مرد اپنی سرزمین کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جنگ میں، کوئی صنفی امتیاز نہیں ہے؛ لڑائی جذبے اور ہمت سے ہوتی ہے ۔ ہماری آزادی کے حصول کا واحد راستہ قربانی ہے۔ ہم اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گے جب تک ہم اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آج سب گواہ ہیں کہ پاکستان جھوٹی ترقی کی آڑ میں بلوچ قوم کے ساتھ کیسا سلوک کر رہا ہے۔ پاکستان منظم طریقے سے بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہا ہے اور ان کے قدرتی وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ بلوچ عوام کا اغوا اور ماورائے عدالت قتل ہی واحد ترقی دیکھنے مین آرہی ہے۔ دنیا کے پانچویں سب سے بڑے سونے کے وسائل کا مالک تین وقت کی روٹی کیلئے مر رہی ہے۔ اگر بلوچ عوام غیر فعال رہے تو وہ خود کو کیسے قربان نہیں کر سکتے؟ اب بلوچ عوام سمجھتے ہیں کہ جدوجہد کے ذریعے ہی بلوچستان اور اس کے عوام آزادی اور امن حاصل کر سکتے ہیں۔ بلوچ نوجوان اب ذہنی اور جسمانی طور پر اتنے مضبوط ہیں کہ بلوچستان کی آزادی کے لیے ضروری قربانیاں دے سکتے ہیں۔

آخر میں بلوچستان کی اس بہادر بیٹی کو دل کی گہرائیوں سے سلام جنہون نے ایک آزاد بلوچستان کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں