زاکر مجید؛ اسیری کے چودہ سال اور کچھ یادیں ۔ ریاض بلوچ

653

زاکر مجید؛ اسیری کے چودہ سال اور کچھ یادیں

 تحریر: ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ طالبعلم رہنما زاکر مجید بلوچ کی جبری گمشدگی کو آج چودہ سال ہو گئے ہیں، چودہ سال کا عرصہ ایک طویل زندگی ہوتی ہے، جس وقت ذاکر جان کو جبری لاپتہ کیا گیا اس وقت کے بچے اب بڑے ہو کر ماں باپ بن چکے ہیں، موسموں نے کئی رنگیں بدلے ہیں، درختوں نے کئی پتے جھاڑے، سبز ہوئے اور اب خشک ہو گئے ہیں، دنیا کتنی تبدیلیوں سے گزر چکی ہے-

زاکر مجید کو پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے مستونگ سے انکے دو ساتھیوں سمیت (جو بعد میں بازیاب ہوئے ) جبری اٹھا کر لاپتہ کیا،تب زاکر مجید بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی وائس چیئرمین تھے. بی ایس او آزاد بلوچ طلباء کی سیاسی آواز ہے جس نے بلوچ طلباء کے سیاسی اور تعلیمی مسائل کو حل کرنے میں ہمیشہ جمہوری طریقہ کار کو ترجیح دی ہے، ہاں البتہ بلوچ قومی سوال پہ بی ایس او آزاد ایک واضح سیاسی بیانیہ رکھتی ہے، جس کی وجہ سے ریاست نے بی ایس او آزاد کو سیاست کرنے سے روکا اور اس پہ قدغن لگا دیا ہے، تنظیم کے سینکڑوں سیاسی کارکنان کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا یا سالوں سے جبری گمشدہ رکھا ہوا ہے ، جن میں بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین زاھد بلوچ، سابق وائس چیئرمین زاکر مجید بلوچ، سابق انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ اور مرکزی رہنما تاحال ریاستی ٹارچر سیلز میں قید ہیں اور ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں، ان کا اگر کوئی جرم ہے تو وہ سیاسی بغاوت ہے، جو ایک واضح اور نظریاتی سیاست کی شکل میں موجود ہے، اسی واضح اور سخت گیر سیاسی سیاسی موقف رکھنے اور اس پہ عمل پیرا ہونے کی پاداش میں زاکر جان کے سینکڑوں فکری ساتھی اس جدوجہد کی پر کٹھن راہ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں یا زاکر کی طرح اب بھی پسِ زندان ہیں.

زاکر مجید بلوچ ایک سیاسی کارکن رہے ہیں، انہوں نے قومی بیداری کیلئے بلوچستان کے ہر تعلیمی ادارے ، ہر شہر و کوچہ میں بلوچ قومی نجات اور بیداری کا پیغام پہنچایا اور قبضہ گیر کی کالونیل سسٹم کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔

زاکر مجید نے کوئی ہتھیار نہیں اٹھایا تھا نا کہ اس کا کسی مسلح تنظیم سے کوئی تعلق تھا، وہ جمہوری طریقے سے اپنے قومی حقوق کی بات کرتے رہے ہیں. پر امن سیاسی جدوجہد سیاسی حقوق کا مطالبہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے، دنیا کے کسی قانون میں کسی انسان کو انکے بنیادی قومی اور انسانی حقوق کے مطالبے سے نہیں روکا جاسکتا ہے. فرد یا کسی تنظیم سے ریاست اختلاف رکھ سکتا ہے لیکن اختلافات کی بنیاد پر کسی ادارے پہ قدغن یا اسکے کارکنوں کو بالجبر اٹھا کر غائب نہیں کیا جا سکتا ہے، اس طرح کسی فکر کو ہر گز ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، ریاست نے بلوچ جدوجہد کو ختم کرنے کیلئے فاشزم کی حدیں تمام کر دی ہیں، بلوچستان میں ہونے والی مظالم سے تاریخ انسانیت شرمندہ ہے.

زاکر مجید کی بوڑھی اور بیمار ماں جو شاید کبھی اپنے گھر سے بھی باہر نہیں نکلی ہیں جو پچھلے چودہ سالوں سے زاکر جان کی بازیابی کیلئے کبھی کوئٹہ تو کبھی اسلام آباد میں زاکر جان کی تصویر لیئے اپنے لخت جگر کی راہ ڈھونڈتی پھر رہی ہیں، وہ ہر گز نا امید نہیں ہیں انکو اور ہم سب کو یقین ہے کہ زاکر جان آئیں گے ایک دن وہ ضرور آئیں گے اپنے اماں کیلئے اپنے نظریاتی اور فکری دوستوں کیلئے.

زاکر مجید کی بازیابی کیلئے انکی ماں، انکی بہن فرزانہ وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز انکی اپنی تنظیم اور دوسرے بلوچ سیاسی و انسانی حقوق کی تنظیموں نے ہر فورم پہ ملک اور بیرون ممالک اسکی بازیابی کیلئے آواز اٹھایا ہے۔

دو سال پہلے اسلام آباد میں کیمپ لگایا اور چار دن اور چار راتیں دوسرے مسسنگ پرسنز کی فیملیز کے ساتھ زاکر مجید کی ماں بھی اسلام آباد کی یخ بستہ سردی میں آسمان تلے احتجاجاً بیٹھی رہیں ، حکومتی ارکان آئے وعدے کیے، ملاقاتیں کیں لیکن عملدرآمد کچھ بھی نہیں ہوا، ان میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ جرم قبول کر لیں اور اپنے ہی بنائے گئے عدالتوں پہ بھروسہ بھی نہیں ہے کہ لاپتہ افراد کو ان عدالتوں میں پیش کر سکیں.

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں زاکر مجید کی بالجبر اغواء اور انکی غیر قانونی ریاستی حراست کے خلاف پاکستان کے اداروں کو مراسلے بھی لکھ چکے ہیں، اسکی زندگی کو لاحق خطرات کے متعلق خدشہ ظاہر کر چکے ہیں لیکن پاکستانی ریاست کسی عالمی انسانی حقوق کی پاسداری نہیں رکھتا اور کسی بھی قانون پہ عمل کرنے سے قاصر ہیں –

زاکر مجید بلوچ پچھلے چودہ سالوں سے بنا کسی جرم کے غیر قانونی طور پر پابند سلاسل ہیں اور تاریک کوٹھڑیوں میں زندگی کا نصف حصہ گزار چکے ہیں، انکی فیملی پچھلے چودہ سالوں سے شدید کرب و ازیت میں مبتلا ہیں، انکی بوڑھی والدہ جو ہم سب کی والدہ ہیں آج تک اپنے بیٹے کی راہ تک رہے ہیں، انکو اپنی پختہ ایمان اور طویل جدوجہد پہ یقین ہے کہ زاکر جان ضرور آئیں گے۔

زاکر مجید سے جڑی کچھ یادیں

زاکر مجید سے آشنائی 2006 میں ہوئی، جب وہ بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکرٹری جنرل تھے، نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد وہ تنظیمی امور کے سلسلے میں بیشتر شال میں ہوا کرتے تھے تب میں بھی ایف ایس سی کرنے کے بعد وہیں ہوتا تھا تو ہم اکثر شام کو اکٹھے بیٹھا کرتے تھے، چیئرمین بشیر زیب بلوچ، زاھد بلوچ ، ایڈوکیٹ شاہ زیب، سلام صابر، شوکت ناز اور دوسرے دوست بھی کبھی کبھار شریک مجلس رہے ہیں، ہم جب کبھی بازار کی طرف جاتے تو اسے فون کرتے تو وہ اکثر کیفے صادق یا پریس کلب کے سامنے ایک ہوٹل “ھنی آن راک” ہوا کرتا تھا ہمیں وہیں بلاتے، تو ہم وہاں بیٹھ کر سیاست اور حالات حاضرہ بھی بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے، کبھی مجھ سے بیان یا پمفلٹ لکھواتا تھا اور بیٹھ کر پروف ریڈنگ کرتا اور میری غلطیوں کی نشاندہی کرتا تھا، مجھے تب لکھنے کا بہت شوق تھا ڈیلی آساپ اور پھر توار اخبار میں لکھتا رہا ہوں، زاکر جان کے ساتھ تنظیم کے مختلف پروگراموں میں ساتھ رہے ہیں۔

2008 کو تنظیم کے منعقدہ اٹھارہویں قومی کونسل سیشن میں بھی ہم ساتھ تھے، سیشن میں الیکشن کے دن ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے قابل احترام اکابرین بشیر زیب بلوچ کو دوبارہ چیئرمین دیکھنا چاہتے ہیں، جبکہ زاکر مجید بلوچ بھی چیئرمین شپ کیلئے بشیر زیب کے حامی تھے اور انکے کابینہ میں آ رہے تھے، جس پر انکے ساتھ یونیورسٹی کے ہاسٹل روم میں ہم نے کافی بحث کی، کیوں کہ ہم بطور بی ایس او آزاد کے ایک پر امن سیاسی کارکن اور زونل زمہ دار اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے، ہم بی ایس او آزاد کو وہاں دیکھنا چاہتے تھے جہاں اُس وقت وہ متحرک تھی اور ہم تنظیم کو تعلیمی اداروں اور کیمپسز میں مزید متحرک دیکھنا چاہتے تھے، ہماری خواہش تھی کہ جو قیادت سرفیس پہ موجود ہے اور کام کر رہی ہے اسے تنظیم لیڈکرنے دیا جائے ، خیر اس کونسل سیشن کے حوالے سے اور زاکر جان کے ساتھ بھی بہت ساری یاد داشتیں بھی ہیں جو وقت آنے پہ مزید تفصیل سے لکھے جا سکتے ہیں-

جب زاکر جان کو ہم سے چھین کر بند کوٹھڑیوں میں ڈال دیا گیا، تب ہم لڑکپن میں تھے، کالج بھی پاس نہیں کیا تھا، اسی سال نئی نویلی میری شادی ہوئی تھی اور جب زاکر جان کا آنا نہیں ہوا تھا تو میں نے خوب گلہ کیا تھا تو اس نے وعدہ کیا تھا کہ اگلی دفعہ جب وہ تربت آئیں گے تو ہمارے علاقے ہمارے گاؤں ضرور آئیں گے اور وہ اپنی جبری گمشدگی کے ایک مہینے پہلے آیا بھی تھا 2009 مئی مہینے میں، ہمارے ایک ساتھی کی شادی پہ لیکن تب میں لاہور میں تھا، اس کے ساتھ فون پہ بات ہوا تو وہ بتا رہے تھے اس نے وہاں لوگوں کس طرح سیاسی بحث مباحثے کیے ہیں اور ہنس کر باتوں باتوں میں یہ بھی کہا کہ آپکے علاقے میں بڑے بڑے ملا ہیں۔

زاکر مجید بلوچ آج ہر بلوچ اور غیر بلوچ طالبعلم سیاسی ورکر کے آئیڈیل ہیں، کیوں کہ زاکر مجید ایک پکا نظریاتی اور سیاسی ورکر رہے ہیں وہ قولا اور عملا اپنے کاز کے وابستہ رہے ہیں، زاکر جان کی ماں گلہ کرتی تھیں کہ زاکر گھر سے زیادہ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔

آج ہر بلوچ طالبعلم کا ہر سیاسی ورکر کا زندگی کے مختلف طبقہ فکر سے متعلقہ ہر انسان دوست کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ زاکر مجید کی بازیابی کیلئے آواز اٹھائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں