بلوچ کارکن کی پاکستان منتقلی و جبری گمشدگیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر کیمپئن ٹرینڈ کر گئی۔
بلوچ کارکن راشد حسین کی متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی و پاکستان منتقلی و جبری گمشدگی کے پانچ سال کا عرصہ مکمل ہونے پر بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کی جانب سے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر آگاہی مہم چلائی گئی جو جرمنی سمیت مختلف ممالک میں ٹرینڈ بن گئی۔
بلوچ کارکن کو 26 دسمبر 2018 کو اس وقت متحدہ عرب امارات کے شہر شارجہ سے وہاں کے خفیہ پولیس نے حراست میں لیا جب وہ اپنے دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ گاڑی میں دبئی کی طرف سفر کررہے تھیں-
راشد حسین کی جبری گمشدگی کے خلاف آج بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹس “بی ایس ایم اے” کی جانب سے چلائی گئی، کیمپئن میں بلوچ سیاسی کارکنان سمیت مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ٹوئٹ کرتے ہوئے بلوچ کارکن کی رہائی کا مطالبہ کیا-
بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے راشد حسین کی جبری گمشدگی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ راشد حسین کی طویل جبری گمشدگی ملکی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اسلیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ راشد حسین کو فوری طور پر منظر عام پر لاکر انکے خاندان کو انکی جبری گمشدگی کی اذیت سے نجات دلائی جائے-
راشد حسین کی والدہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کیمپ میں شریک ہوئی جہاں انہوں نے انسانی حقوق کے تنظیموں و حکومت سے بیٹے کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا-
اس حوالے سے راشد حسین کی ہمشیرہ فریدہ بلوچ نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا گذشتہ پانچ سالوں سے ہمیں ہمارے بھائی راشد حسین کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے نجانے وہ کیسا اور کس حال میں ہے یہ کیسی تفتیش ہے جسے اس ریاست کے ادارے پانچ سال تک مکمل نہیں کرسکے عدلیہ کمیشن ہمیں یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں راشد حسین کو منظر عام پر لایا جائے-