بلوچستان: لاشیں اگلتی سرزمین
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان پولیس کی کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے 30 اگست 2021 کو ڈپٹی کمشنر خضدار اور ڈپٹی کمشنر آواران کو ایک لیٹر ارسال کیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ناصر فاروق ولد غلام فاروق سکنہ محلہ صادق آباد زہری، غلام جان ولد باران سکنہ بائی پاس کوئٹہ، عبدالقیوم ولد زہری خان سکنہ زہری خضدار، کمال خان ولد باہوٹ سکنہ چُکی آواران ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں اور انہیں دہشتگرد قرار دیا گیا۔ کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک افراد کو لاوارث قرار دیکر ایدھی کے ذریعے دشت تیرہ میل میں تدفین کردی تھی۔
دشت تیرہ میل میں گمنام لاشوں کا ایک قبرستان آباد ہے۔کوئٹہ-سبی روڈ پر واقع اس قبرستان میں دو سو سے زائد قبریں ہیں، یہ لاشیں پہاڑی علاقوں اور ویرانوں سے لاوارث حالت میں ملیں تھیں۔بلوچ آزادی پسند حلقے دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ مذکورہ لاشوں میں اکثریت جبری گمشدہ افراد کی ہے جن میں سے کئی لاشیں مسخ شدہ حالت میں ہسپتال لائی جاتی ہیں اور کئی جعلی پولیس مقابلوں میں مارے گئے ہیں۔
دو سال قبل لاوارث قرار دے کر تدفین کرنے والے لاشیں جبری گمشدہ افراد کے ہیں، اِن لاشوں میں زہری سے جبری گمشدہ ناصر جان قمبرانی اور نومبر دو ہزار بیس میں حب چوکی سے فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کے ہاتھوں جبری گمشدہ عبدالقیوم زہری کے نام سے خاندان نے شناخت کرکے آبائی علاقوں میں دفن کردیئے۔
اکیسوی صدی کے شروعات سے بلوچستان کی تحریک آزادی شدت کے ساتھ جاری ہے اور بلوچ آزادی کی تحریک کا راستہ روکنے کے لئے جبری گمشدہ افراد کا تشدد زدہ لاشوں کی شکل میں برآمدگی کا سلسلہ سنہ 2008 سے شروع ہوا تھا جو تاحال مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور میں ہزاروں جبری گمشدہ افراد کی لاشیں مختلف علاقوں میں مسخ شدہ حالت میں ملی ہیں۔
عبدالقیوم زہری کی بیٹی زنیرہ جیسے سینکڑوں بیٹیاں اس آس میں بیٹھے ہیں کہ اُن کے جبری گمشدہ والد بازیاب ہونگے لیکن وہ لاشوں کی صورت میں گمنام افراد کے قبرستانوں سے بازیاب ہورہے ہیں۔
پاکستان کے بااختیار ادارے بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے مبینہ کمانڈر کو میڈیا کے سامنے پیش کرکے بلوچ مسئلے کو حل کرنے کے دعوے کررہے ہیں اور دوسری جانب زبیرہ جیسے بچوں سے اُن کے سر کا سایہ چھینا جارہا ہے۔ جبری گمشدہ افراد کے قتل سے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو تقویت ملے گی اور عوام میں غم و غصہ مزید زیادہ ہوگا۔