ایک اور دوا ساز کمپنی نے پاکستان سے کاروبار سمیٹ لیا

171

ایک اور ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنی کی جانب سے پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹے جانے کے بعد نئی مینجمنٹ کی جانب سے چھانٹی کیے جانے کے خدشے سے دوچار ملازمین نے کمپنی کی بین الاقوامی پالیسیوں کے مطابق ملازمت کے تحفظ کی یقین دہانی اور کمپنی سے علیحدگی کے پیکجز کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بایر (Bayer) کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس نے اپنے اثاثے ایک مقامی کمپنی کو فروخت کر دیے ہیں جس نے موجودہ ملازمین کو کم از کم دو سال کے لیے ملازمت کے تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے چونکہ یہ کارکن ملازمت کرتے رہیں گے، اس لیے کسی کی جانب سے علیحدگی کے پیکجز کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔

بایر پاکستان سے حال ہی میں اپنا کاروبار سمیٹنے والی دوسری بین الاقوامی دوا ساز کمپنی ہے اس سے قبل نومبر 2022 میں امریکی دوا ساز کمپنی ایلی للی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان سے کاروبار سمیٹ رہی ہے۔

جرمنی کی ملٹی نیشنل کمپنی کے مقامی ملازمین نے رواں ہفتے نیشنل پریس کلب میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں کمپنی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ انہیں 60 سے 100 ماہ کی تنخواہیں ادا کرے جو کہ دنیا میں کسی اور کمپنی کی جانب سے برطرف کیے جانے کی پالیسیوں کے برابر ہے۔

مظاہرے میں متاثرہ ملازمین نے صدر، وزیراعظم اور چیف جسٹس سے اپیل کی کہ وہ ان کی حالت زار کا نوٹس لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ادارہ انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم نہ کرے۔

احتجاج کرنے والے ملازمین میں سے ایک نے کہا کہ بایر کے ملازمین کمپنی سے علیحدگی کے ایک اچھے پیکج کے حقدار ہیں، چونکہ کمپنی ایک مقامی فرم کو فروخت کر دی گئی ہے، اس لیے وہ ملازمت کی حفاظت کی دو سال کی مدت ختم ہونے کے بعد اسی طرح کی برطرفی کی شرائط کی توقع نہیں کر سکتے۔

تاہم، بایر فارما کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر عمران احمد خان نے ڈان کو بتایا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کمپنی کے ملازمین ’غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔

ن کا کہنا تھا کہ ایک بھی ملازم کو برطرف نہیں کیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ بایر نے اپنے اثاثے اور حصص ایک مقامی کمپنی کو فروخت کیے ہیں، معاہدے میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ مقامی کمپنی ملازمین کو تنخواہ کے انہی پیکیجز پر برقرار رکھے گی اور کسی کو دو سال تک ملازمت سے نہیں نکالے گی، کمپنی کے ملازمین کی کل تعداد تقریباً 250 تھی جو کہ اس تعداد سے بہت کم ہے جس کے بارے میں ملازمین کا دعویٰ ہے کہ انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔