اس جنگ کو کس کو بڑھانا ہے؟
تحریر: بہلول بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہم ایک ایسے سیارے کے باسی ہیں جس کا نام(بلوچستان) سُنتے ہی ہر کسی کے ذہن میں آہو فغاں،چیخ و پُکار، دربدری، جلاوطنی اور بنیادی چیزوں محرومیوں کی موضوع جنم لیتے ہیں۔ اس سیارے (بلوچستان) کا عام باسی جس صورتحال سے گزر رہا ہے (یا اُسے گزارا جا رہا ہے ) شاید یہ آپ کو بہت سے کم قوموں کے تاریخ میں مِلیں گے۔ جس میں ہر روز کسی والدن کے لال ،بہن کا سہارا، بچوں کا پیار، بھائی کا خوائش پورے کرنے کا اِکلوتا امید بلکہ پورے گھر کو کھنڈر میں بدل کر کے اُسے ہمیشہ کے لئے سُلا دیتے ہیں یا پھر اُسے ثبات میں مُبتلا کر کے کسی عید یا خوشی کے موقع پر روڈوں سی ہمیں تحفے میں دے دیتے ہیں۔یہ دیکھ کر ہر اُس شخص کا خون اُبلنے لگتا ہے جو انسان پرست ہوتے ہیں۔بلکہ یہ دیکھ کر جانوروں کو انسانوں کے اوپر ترس آنے لگے ہیں اور ایک طرف وہی سیارے کے باسی اپنے اوپر ہونے والے ظلم،جِبر،تشدد کے باوجود بیٹھ کر گونگے، بہرے ، نابینا بن کر تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
جب یہ دیکھ کر بلوچستان کے کچھ باسی اِن پر نظر ثانی کر کے (بلکہ ہر کسی کو کرنا چائیے) اُنہیں معلوم ہوتا ہے یہ جو ہمارے ساتھ ہورہے ہیں یہ تو اُنہی قوم کے ساتھ ہوتے ہیں جو قومیں غلام ہوتے ہیں ۔تب ہی اُنہیں اپنی غلامی کا احساس ہوکر ان سب چیزوں سے نکلنے کے لیئے اچھے راہ کی کُنج کاوی میں پھر سے اُسے سوچ بچار کرنا پڑتا ہے اور پھر یوں ہوتا ہے کے اُسے صرف ایک راہ یعنی مزاحمت کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
وہ مزاحمت کون سا ہے ؟
وہی مزاحمت جو خان میر محراب خان ، نواب نوروز خان ، میر بالاچ خان مری ، نواب اکبر خان بگٹی ، اُستاد جنرل اسلم بلوچ اور دیگر رہنماؤں نے ہمیں یہ راستہ دکھاۓ ۔اُسی مزاحمت میں نہ صرف ہم ان چیزوں سے بچ سکتے ہے بلکہ اپنا شناخت ، ثقافت اور بقا کو بھی بچا سکتے ہیں۔ یہی مزاحمت ہمارے بقا کا ضامن ہے ۔
جب کوئی یہ دُشوار راہ اختیار کرلیتا ہے ۔ تو سردار یا سرکار کے لوگ کسی مزہبی گروہ یا کوئی اور لُبادیں میں اوڑ کر کبھی اُسے بُنیادی چیزوں سے نلکنے کا جھانسا دے کر ، کبھی اُس کو آسائش اور آرام کی زندگی دینے کا جھوٹا وعدہ کرکہ اُسے روکنے کے لیئے مصروفِ عمل ہوتے ہیں اگر اِن سب چیزوں کو منظور نہیں کیا تو دھمکی دھمکانے کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں یہ سب گروہوں کی جالوں سے نِکل کر اُس کے گلے میں کوئی اور جل پڑ جاتا ہے اور وہ ہے گھر کا جال جب گھر والوں سے پلہ پڑ جاتا ہے تو اُسے یہی کہتے ہے کہ تُم محال ہو یہ راہ تُم سے بالاتِر ہے اِس کشاکش میں خامہ خواہ (ناحق) اپنا حصہ ڈالتے ہو ۔ کوئی بھی سردار اس جنگ میں حصہ نہیں لیتا نہ کوئی معتبرین اور بہت سے لنگڑے لُولِے دلائِل دے کر روکنے کا عمل جاری و ساری رہتا ہے کچھ لوگ ایسے جھانسے میں اٹک کر پیچھے رہ جاتے ہیں اور کچھ اپنے کاروان کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں ۔اِس لکھائی میں مصروف تھا تو مجھے نواب اکبر خان بگٹی کی کچھ باتیں یاد آئی ۔
جب نواب اکبر خان بگٹی بغاوت پر اُتر آتے ہیں تو وہ پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں پہاڑوں پر ایک شوہان (چرواہا) کو دیکھتا ہے ۔
اُس سے پوچھتا ہے کہ ،
آپ اپنے اوپر ہونے والے ظُلم کے خلاف آواز کیوں نہیں اُٹھاتے ؟
شوہان کہتا ہے ،
نواب صاحب ہم غریب لوگ کہاں ظلم کے خلاف اُٹھ سکتے ہیں ۔آپ لوگ بڑے لوگ ہیں آپ لوگوں کے پاس طاقت ہیں اور بندے بھی بہت ساتھ ہیں ۔ ہم میں اتنا سکت کہاں !
نواب کہتا ہے ”
اگر اِس جنگ کو کوئی اچھی طرح سے سمجھے یہ آپ غریب لوگوں کا جنگ ہے ہم تو آپ لوگوں کی جنگ لڑ رہے ہیں اگر ہم چاہیں تو آرام سے بیٹھ کر اپنے زندگی اچھے طریقے سے گُزار سکتے ہیں بلکہ ہمارے آنے والی پِیڑی (نسل) بھی اپنے زندگی عیش و آرام سے گزار سکتا ہے۔
اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ جنگ ہمارا غریب کا جنگ ہے اور اِس جنگ کو ہم کو ہی کرنا ہے ۔ اگر موجودہ جنگ کی صورتحال کو دیکھا جائے تو اِس جنگ کو اِس مقام تک لانے والے اِس میں جدّت و شِدّت لانے والے غریب تھے اور غریب ہی ہیں۔جن کا مثال اُستاد اسلم جان ، بشیر زیب و واجو جان کا دیا جاسکتا ہے ۔
ہم غریبوں کے لیئے اِس درتی کو تندور بنانے والوں کو وقار کی زندگی گُزارنے سے محروم کرے یہ جو ہمارے اوپر جتنے بھی آفاتیں کھڑا کر رکھے ہیں یہ سب خُدا کی طرف سے آزمائیشیں نہیں بلکہ خُدا کی بندوں کی طرف سے ہم پر آئے ہوئے ہیں۔
اِن سب چیزوں سے چُھٹکارا حاصل کرنے کے لیۓ ہم کو قدم بڑھانے ہونگے کیونکہ انقلاب قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوتا اگر حاصل ہوسکتا تو حضورؐ کے دستِ مبارک سے آتے اور سینکڑوں صحابوں کے جانوں کی قربانیاں نہیں دینی پڑتی اور ہمیں نہ کے کسی دوسروں کے لیئے آس لگا کر بیٹھے گے کے فِلاں آ کر اِس جنگ کو آگے لے جائے گا یا اِس آس میں کے کوئی اِس جنگ میں جِدّت وشِدّت لاۓ گا یا یہ سوچھ کر کہ سردار کچھ نہیں کرتے ۔فلاں میر و معتبر ، نواب و وڈیرہ یا خان و ٹکری کچھ نہیں کرتے ہم کیوں قربانی دے ۔
تو آئیے ہم عہد کرتے ہیں بلوچ قوم کی شناخت ، ثقافت ، آزادی اور بقا کیلئے اِس جنگ میں ہر کوئی اپنا موثر کردار ادا کرینگے اور اس جنگ کو نسل در نسل مُنتقل کرتے رہیں گے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں