اجتماعی جدوجہد ہی ہمیں تاریکیوں سے نکال سکتی ہے – بساک

92

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے نومنتخب چیئرمین شبیر بلوچ اور دیگر رہنماؤں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ تنظیم کا تیسری مرکزی کونسل سیشن بیادِ شہید صباء دشتیاری، بنامِ صورت خان مری و محمد علی تالپور سابقہ چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کی سربراہی میں بمقام شال منعقد ہوا۔ تین روزہ مرکزی کونسل سیشن دو روزہ بند کمرہ اجلاس و آخری دن حلف برداری دیوان پر مشتمل تھا جو کہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔شبیر بلوچ چیئرمین، اظہر بلوچ سیکرٹری جنرل منتحب ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ مرکزی کونسل سیشن کے پہلے دو روزہ بند کمرہ اجلاس کا باقائدہ آغاز چیئرپرسن کے خطاب سے کیا گیا۔ اس کے بعد مختلف ایجنڈوں جن میں آئین سازی، سیکریٹری رپورٹ، تنقیدی نشست، تنظیمی امور، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئندہ لائحہ عمل پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہوا۔ سیشن کا دوسرا ایجنڈا آئین سازی تھا جس میں آئینی کمیٹی کے تجاوزات کونسلران کے سامنے رکھے گئے اور کونسلران کی اکثریتی رائے سے تنظیم کے آئین میں ضروری تبدیلیاں لائی گئی۔

رہنماؤں نے کہاکہ تیسرے ایجنڈے میں سیکرٹری جنرل کی جانب سے سیکریٹری رپورٹ پیش کیا گیا جس میں تنظیم کے پچھلے دو سالہ کارکردگی جن میں ایجوکیشنل پروگرامات ، بلوچستان کتاب کاروان کے نام پر منعقد کتب میلے، مادری زبانوں کی ترقی و ترویج کےلیے ترتیب دیے گئے مختلف پروگرام سمیت تنظیمی لٹریچر نوْشت اور گام کے رپورٹ کونسلران کے سامنے پیش کیے گئے اور ان پر تفصیلی بحث و مباحثہ کیا گیا۔

جبکہ اجلاس کا چوتھا ایجنڈا تنقیدی نشست تھا جس میں مختلف زونز سے آئے ہوئے کونسلران نے بڑھ چڑھ کر دو سالہ تنظیمی سرگرمیوں میں غلطیوں کی نشاندہی کی اور اصلاحی تنقیدیں کیں۔ مرکزی کونسل سیشن کا پہلا روزہ اجلاس کا اختتام تنقیدی نشست کے ایجنڈے پر ہوا۔ سیشن کے دوسرے روز 17 جون کے اجلاس کا پانچویں اینجڈے تنظیمی امور سے باقاعدہ آغاز ہوا۔ کونسلران نے تنظیمی امور پر لکھے گئے اپنے ڈرافٹ پیش کیے اور آنے والے دو سالوں کیلئے مختلف تجاویزات مرکزی کونسل سیشن کے سامنے پیش کیں۔ تنظیمی امور کے ایجنڈے پر کونسلران نے مختلف پروگرام و پالیسیوں پر بحث و مباحثہ کیا.

چئرمین نے کہاکہ دو روزہ بند کمرہ اجلاس کے آخری ایجنڈے آئندہ لائحہ عمل اور الیکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ضروری فیصلہ سازی کے بعد الیکشن کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کا چناؤ عمل میں لایا گیا۔ سابقہ چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ ، عارف بلوچ اور معراج بلوچ الیکشن کمیشن کے رکن منتخب ہوئے جہنوں نے الیکشن کا عمل سر انجام دیا۔مرکزی کابینہ کے پانچ عہدیداروں کےکیے جمع کیے امیدواروں میں سے شبیر بلوچ بلامقابلہ چئیرپرسن منتخب ہوئے جبکہ وائس چیئرپرسن رفیق بلوچ، سیکرٹری جنرل اظہر بلوچ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد بلوچ اور انفامیشن سیکریٹری کیلئے عُزیر بلوچ منتخب ہوئے۔ سینٹرل کمیٹی کے 8 اراکین کیلئے 10 کونسلران نے اپنے فارم جمع کیے جس کے بعد الیکشن عمل میں لایا گیا۔ الیکشن میں سینٹرل کمیٹی کیلئے مصدق بلوچ، سلیم بلوچ، عامر بلوچ، بالاچ بلوچ، وقار بلوچ، فوزیہ بلوچ، شیراز بلوچ اور پیرجان بلوچ منتخب ہوئے۔

انکا کہناتھا کہ مرکزی کونسل سیشن کے تیسرے دن حلف برداری تقریب بولان میڈیکل کالج میں منعقد کی گئی جس میں سابقہ چیئرپرسن صبیحہ بلوچ نے نئے مرکزی عہدہ داران سے حلف لیا۔ تقریب میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے مہمان اسپیکرز نے آئے ہوئے شرکاء سے خطاب کیا۔ تقریب حلف برداری میں سابقہ چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، پروفیسر منظور بلوچ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سابقہ چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ اور نو منتخب چئیرمین شبیر بلوچ نے خطاب کیا جبکہ میر محمد علی تالپور نے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ دیوان میں شہید پروفیسر صباء دشتیاری کے زندگی اور جدوجہد پر ڈاکومنٹری پیش کی گئی۔ تقریب حلف برداری میں تنظیم کی جانب سے شائع کی گئی میگزین گام اور بلوچ لٹریسی کمپین بک کیٹ کی رونمائی بھی کی گئی۔ تقریب حلف برداری کے آخر میں بلوچی و براہوئی زبان کے نامور و مشہور موسیقی کاروں کی موجودگی میں میوزیکل پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ میں بحثیت نو‌منتخب چئیرمین تنظیم کی کامیاب کونسل‌سیشن پر تنظیم کے تمام کارکنان ، سابقہ لیڈرشپ ، بلوچ طلبا ء و طالبات ، اور خاص کر بلوچ قوم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تنظیم نے مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر اپنے تیسرے کونسل سیشن منعقد کی جو کہ یقیناً ہمارے مخلص سیاسی کارکنوں کی انتھک محنت و جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے انتہائی سخت حالات کے باوجود اپنی جدوجہد کو جاری رکھا اور تنظیمی و قومی زمہ داریوں کو بخوبی سرانجام دیا۔ اس دوران ہماری کوشش رہے گی کہ کسی بھی حالت میں تنظیمی پروگرام اور بلوچ راجدوستی کی فکر کو بلوچستان کے کونے کونے میں نوجوانوں تک پہنچائیں۔ اس سفر میں کئی کمزوریوں اور بہتری کی گنجائش کے باجود بطور ادارہ اس کم مدت میں جو کامیابیاں ہم نے حاصل کیں وہ قابل ستائش اور بہتری کی جانب ہمارے سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ فردی آزادی پر یقین رکھنے کے باجود بھی آج یورپی دنیا تنظیمی ساخت کو اتنا کیوں اہمیت دے رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بطور قوم یا ریاست ہم کسی نہ کسی طرح اجتماع سے جڑے ہوئے ہیں ہمارا تعلق بطور قوم ایک اجتماع سے ہے اور جہاں اجتماع کا نقصان ہو رہا ہوتا ہے وہاں فرد کو مطئمن رہنا نہیں چاہیے بلکہ اُس اجتماعی فکر و فسلفے کا ساتھ دینا چاہیے جس سے ہر فرد کے مفادات وابستہ ہیں۔ فرد کا تعلق معاشرے سے ہے اور جب آپ کا معاشرہ استحصال ، بدامنی، لوٹ مار، قبضہ گیریت اور جبر کے سائے تلے میں ہو تو ایسے حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ بطور فرد اپنے لیے بہتری کی امید رکھیں۔ اسی جدید اداراجاتی سوچ کی بدولت آج دنیا کے کئی اقوام بہترین اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں، آج کے جدید دور میں اقوام کی مستقبل اور ترقی جدید اداروں کی سائنسی بنیادوں پر منظم ہونے سے وابستہ ہے اس لیے بطور ایک محکوم و مظلوم قوم ہمیں اداراجاتی ساخت کو مزید منظم بنانے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں جب بطور قوم آپ کی ارتقاء روک دی گئی ہو، آپ کی تہذیب و تمدن، اخلاقیات سب خطرے میں ہوں تو ایسے حالات میں کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ انفرادی آزادی ہمارے مسئلے کا حل ہو سکتا ہے بلکہ ہمیں اجتماعی جدوجہد ہی ہمیں تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں سے جوڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اجتماعی عمل کو منظم رکھنے کیلئے ہم تنظیم کا انتخاب کرتے ہیں اور تنظیمی تسلسل کو رواں رکھنے کے لیے یا تنظیم کو چلانے کو لیے ہم سائنسی عمل کا انتخاب کرتے ہیں، سائنسی عمل سے مُراد مسلسل غور و فکر کرنا، منزل کا تعین کرنا ،تکنیکی مہارت سے مسائل کی نشاندہی کرنا اور سائنسی عمل کے زریعے انکے حل کا انتخاب کرنا ۔اس پورے عمل سے انسانی پسند نا پسند، انا و تسکین، شکوے و ناراضگی اور ایسے تمام انسانی نفسیاتی مسائل کو خارج کرنا سائنسی عمل کا حصہ ہے۔ بطور بلوچ طلباء تنظیمی سابقہ قیادت نے بھی یہی کوشش کی کہ بلوچ طلباء سیاست کو ادارجاتی بنیادوں پر استوار کر سکیں اور کسی حد تک اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے ہیں اور میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ بلوچ طلباء سیاست مزید سائنسی و ادارجاتی راہبندوں پر گامزن ہو کر مضبوط ہوگی اور ترقی کرے گئی۔

انکا کہنا تھاکہ آج تنظیم کی کامیاب تیسری کونسل سیشن نے یہ ثابت کردیا کہ اگر کوئی حقیقی معنوں میں بلوچ طلباء سیاست کرنا چاہتا ہے تو قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں چھ سال کافی ہے، جدوجہد کرنے کےلئے ستر یا ساٹھ کی دہائی کے دعویدار ہونے کے ضرورت نہیں بلکہ مخلصی اور مستقل مزاجی سے اپنے قومی زمہ داریوں کو سرانجام دینے کی ضرورت ہے۔ آج ہم دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تنظیم نے کم مدت میں اپنی قومی زمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے بلوچ طلباء کے لیے ایک منظم سیاسی پلیٹ فارم ترتیب دی ہے۔ مگر یہ کافی نہیں بلکہ آج کے اس جدید دور میں بلوچ طلباء سیاست کا تقاضہ ماضی سے بہت جدا ہیں۔ آج بلوچ طالبعلموں کو مختلف حیلوں حربوں کے ذریعے زہنی الجھنوں کا شکار بنایا جارہا ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر قدغن لگائی جارہی ہیں۔ تو اس دور میں بلوچ طلباء کی زمہ داریاں کل کی نسبت بہت زیادہ ہیں اس لئے ہمیں آج کے دور کے سیاسی تقاضوں کو سمجھ کر ہمیں اپنی پوری قوت سے جدوجہد کرنی ہوگی۔بلوچ طلباء سیاست میں مختلف سیاسی رویوں پر بحث و مباحث موجود ہیں ۔ مگر سیاسی رویوں کے لئے نا کوئی کورس ہے اور نا کہ ایسا کوئی فارمولا جسے لاگو کیا جا سکے بلکہ سیاسی رویوں خود سے اپنانے پڑتے ہیں۔ تنظیمی کارکنان کی سیاسی بالغی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ بڑے بڑے گفتار سے ہٹ کر ہمیشہ عمل کے میدان میں مصروف ہیں۔

آخر میں انہوں کہاکہ آپ کے توسط سے ہم بلوچ قوم اور ان تمام کرداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کے تعاون سے تنظیم نے اپنا تیسرا کونسل سیشن کامیابی کے ساتھ منعقد کی اور ہم امہد رکھتے ہیں کہ بلوچ قوم اسی طرح بساک کے ساتھ اپنا اعتماد جوڑے رکھے گی اور ہم عہد کرتے ہیں کہ نو منتخب کابینہ کونسل سیشن میں پیش کیے گئے تجاویز اور فیصلوں پر قوم کے امنگوں کے مطابق عمل کرے گئی۔