مظلوموں کی امید
تحریر: سنگت مہروان خارانی
دی بلوچستان پوسٹ
ہر مصنف اپنی سوچ کے مطابق اپنے تحریری موضوع کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی طرح میں نے بھی اپنی پہلی تحریر کے لئے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا جس کے بارے میں پچپن سے ہی سنتے آرہے ہیں۔
مجھے شروع سے ہی بلوچ جہد کاروں سے والہانہ محبت ہے۔ بلوچ جہد کاروں نے بلوچ دھرتی کے دفاع کے لئے بے شمار قربانیاں دیں۔ بڑے بڑے بہادر اور خوبصورت جوان بلوچستان کی دفاع کرتے ہوئے قربان ہو کر بلوچ قوم پر بہت بڑا احسان کر گئے۔ شہید ہونے والا صرف اپنی جان قربان نہیں کرتا بلکہ اپنے خاندان کو بھی قربان کر جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی زندگی کے ساتھ کئی زندگیاں جڑی ہوتی ہیں ۔ وہ اپنے ماں باپ بہن بھائی اور بیوی بچوں کا سہارا ہوتا ہے۔ اس طرح اس کی جان کے ساتھ جڑی ہوئی باقی جانیں اور زندگیاں بھی چلی جاتی ہیں۔
خاران میں ایک ایسا کردار جو مظلوموں کیلئے انصاف کی کرن اور قابض فوج اور مقامی آلہ کاروں کے لیے ایک خوف مانی جاتی تھی جس کی بارے میں پچپن سے سنتے آرہا ہیں کہ بازار ہوں یا دوستوں کی بیٹھک جب بھی بلوچ جہد کاروں کی موضوع پر بات ہوتی تو سب سے پہلے ایک ہی نام آتا “اعصا “۔
اعصا آمین عرف مُلا ابراہیم پچھلے ڈیڑھ دھائی سے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں کردار ادا کررہا تھا۔
اعصا آمین ایک ایسے کمانڈر تھے جس کو خاران میں بچوں سے لیکر بڑے عمر کے لوگوں تک سب جانتے تھے لیکن اکثریت نے صرف اس کی کردار کے بارے سنا ہے دیکھا نہیں بد قسمتی سے میں بھی انہی میں سے ہوں، کاش آپ اتنی جلدی نہیں جاتے کاش میں آپ کے ساتھ بیٹھتا کاش میں آپ سے سیکھتا، خوش قسمت ہیں وہ سنگت جنہوں نے اعصا کے ساتھ وقت گزارے جنہوں نے اعصا سے سیکھا جنہوں نے اعصا کے ساتھ بلوچستان کے سرمائی پہاڑوں کے چوٹیوں پر سفر کیا جنہوں نے اعصا کے ساتھ مل کر جنگ لڑی۔
کچھ وقت پہلے قابض فوج اور اس کا ذیلی ادارہ سی ٹی ڈی نے خاران و گردونواح میں نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا سلسلہ شروع کیا تو ٹارچرسیل میں اکثریت نوجوانوں سے پہلا سوال یہی پوچھا جاتا کہ اعصا کدھر ہے؟ اعصا کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمانڈر اعصا نے دشمن فوج اور مقامی آلہ کاروں کے دلوں میں کس قدر دہشت پھیلائی تھی۔
بزدل فوج نے پچھلے ایک دہائی سے کئی بار کوششیں کی اعصا کو توڑنے کی کبھی مراعات کا لالچ دیکر کبھی چار دیواری کا پامالی کرتے ہوے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتے ہوے بھائیوں کو جبری طور پر اغواء کرنا کبھی پورے فیملی کو ایف سی کیمپ بلا کر ٹارچر کرنا لیکن بزدل فوج یہ نہیں جانتی تھی کہ اعصا اُن جیسوں کی طرح نہیں تھا جو اپنی جوانی کی مستی میں بندوق کی شوق میں پہاڑوں پر جاتے تھے لیکن شوق پورا ہونے کے بعد یا کچھ مراعات کے عوض دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے تھے اعصا آمین نے بندوق شوق سے نہیں بلکہ اس وطن کی دفاع اور قابض کو اس بات کی باور کرانے کیلئے اٹھایا کہ بلوچ اپنی دھرتی ماں کی حفاظت کیلئے پہاڑوں کو اپنا مسکن بناتے ہوے آخری گولی آور آخری سانس تک تمہاری خلاف لڑنے کی طاقت رکھتی ہے۔
دشمن فوج اور اس کے کارندوں نے پچھلے کئی سالوں سے کمانڈر اعصا کو پکڑنے یا شہید کرنے کے لیے متعدد آپریشن کیے مگر آپ ہر بار سرخرو رہے اور دشمن فوج کو شرمندہ کرتے رہے۔
یقیناً آج دشمن فوج کے کیمپ اور مقامی آلہ کاروں کے ہاں خوشی کا سماں ہوگا کہ آج اُن کو ناکوں چنے چبوانے والا بلوچ جہد کار اس دنیا فانی سے رحلت کرگئے لیکن قابض یہ نہیں جانتے کہ کمانڈر اعصا آمین کے مرید اُنکو کبھی سکون سے رہنے نہیں دینگے اُنکے آخری سپاہی کو بھی بلوچستان سے انخلاء کرنے پر مجبور کر کے دم لینگے۔
کمانڈر اعصا آمین عرف مُلا ابراہیم پانچ (5) مئی 2023 کو اس دنیا سے رخصت کرگئے اس وطن کی ٹھنڈی ہوائیں آپ کو سلام پیش کرتی ہیں اور تاریخ آپ کو ہمیشہ سنہری الفاظ میں یاد رکھے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں