معروف محقق، ادیب اور تاریخ دان گل حسن کلمتی جہانِ فانی سے کوچ کرگئے، وہ سندھی، اردو، انگریزی کی کئی کتابوں کے مصنف تھے۔
گل حسن کلمتی کی نماز جنازہ آج حاجی عرضی گوٹھ گڈاپ ملیر میں 11 بجے ادا کی گی۔گل حسن کلمتی جگر کے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔
دسمبر 2022 کے بعد ان کی طبیعت بہت زیادہ ناساز ہو گئی تھی اور وہ بستر پر آ گئے تھے، کراچی کے ایک اسپتال میں ان کا علاج جاری تھا۔
گل حسن کلمتی کون تھے؟
گل حسن کلمتی 5 جولائی 1957 کو کراچی کے علاقے گڈاپ کے چھوٹے سے گاؤں گولاپ میں پیدا ہوئے۔ گل حسن کلمتی کے والد محمد خان ایک مزدور تھے۔
گل حسن کملتی نے اپنے ہی خاندان سے شادی کی، جس سے ان کی ایک بیٹی، جس نے ایم اے سوشیالوجی کی ڈگری حاصل کی۔
گل حسن نے زمانہ طالب علمی میں ہی ادبی دنیا میں قدم جمائے۔ انہوں نے 1974 میں ایس ایم آرٹ کالج کراچی میں داخلہ لیا اور کالج سے شائع ہونے والے ادبی میگزین میں سندھی ادب پر لکھا اور اس کالج میں سندھی ادبی حلقہ بنایا۔
بعد ازاں انہوں نے کراچی سے ایک سندھی اخبار میں لکھنا شروع کیا۔گل حسن کلمتی نے 1979 میں کراچی یونیورسٹی میں صحافت میں داخلہ لیا، جہاں سے 1983 میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کی۔ اس وقت جامعہ کراچی کے اس شعبہ میں صرف دو سندھی طالب علم تھے، ان میں سے ایک وہ خود تھے اور دوسرے مرحوم جمال ابڑو کے بیٹے اظہر ابڑو جو بدر ابڑو کے بھائی ہیں۔
گل حسن کلمتی نے نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن (NSF) کے ذریعے طلبا کی سیاسی نشو و نما کی، تاہم 1983 میں انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (BSO) میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بعد سے BSO سے ان کے اختلافات پیدا ہوگئے۔
بعد ازاں گل حسن نے رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک میں بطور ہمدرد کام کیا، گل حسن کلمتی نے 1984 میں سندھ محاذ میں شمولیت اختیار کی، جس کے چیئرمین عبدالواحد آریسر تھے، جس کے بعد انہوں نے 1990 میں اس تنظیم کو بھی خیرباد کہہ دیا، بعد ازاں وہ سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) میں بھی شامل رہے۔
گل حسن نے کراچی کے دیہی علاقوں میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے ہاتھ مضبوط کیے، جس میں ان کے بہنوئی رحیم بلوچ بھی ان کے ساتھ تھے۔
گل حسن کلمتی نے ایس ٹی پی کو چند سال دینے کے بعد سیاست کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا۔
بعد ازاں گل حسن کلمتی نے کراچی سے روزنامہ ’عوامی آواز‘ کے صفحات میں لکھنا شروع کیا، کراچی کے دیہی علاقوں کی تاریخ اور اس کے علم، تاریخی مقامات، قبائل اور علاقے کے جغرافیہ نے عوامی آواز کے پلیٹ فارم سے اپنے قارئین کو وسیع معلومات فراہم کی، جس کے بعد سندھ کے محکمہ ریونیو نے ان کی جمع کی گئی معلومات کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنایا۔