نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی عدالتی نظام کے استحکام، آزادی، خودمختاری پر یقین رکھتی ہے،بلوچستان کے عوام کے حقوق، لاپتہ افراد کی بازیابی اور امن و سلامتی کے لیے تحریک جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کرے اور سیاسی جمہوری رویہ اختیار کرکے مذاکرات آراستہ اختیار کرے۔
نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ سے سیاسی قومی رہنماؤں نے ژوب بلوچستان میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے کارواں پر خودکش دہشت گرد حملہ کے بعد ٹیلیفونک رابطہ کیا۔مسلم لیگ، پی ٹی آئی، پی پی پی، جے یو پی، جے یو آئی، مجلس وحدت مسلمین، شیعہ علما کونسل، ملی یکجہتی کونسل کے رہنماؤں نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اظہارِ ہمدردی کیا۔
لیاقت بلوچ نے ان تمام قائدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سراج الحق غریب عوام کا مقدمہ پورے ملک میں لڑرہے ہیں۔سیاسی محاذ پر بھی مذاکرات اور مفاہمت کے لیے کوشاں ہیں،ملک میں امن اور استحکام کو خوشحالی کا راستہ قرار دیتے ہیں،جماعت اسلامی کے قائد اور کارکنان کو ٹارگٹ کیا گیا۔اللہ تعالی شریروں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور محافظ ہے،جماعت اسلامی امرا پر ہر دور میں ظلم زیادتی اور جبر روا رکھا گیا۔الحمدللہ! جماعت اسلامی ہر محاذ، آزمائش میں سرخرو رہی ہے۔بلوچستان کے عوام کے حقوق، لاپتہ افراد کی بازیابی اور امن و سلامتی کے لیے تحریک جاری رہے گی۔”حق دو گوادر تحریک” کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں بلوچستان بیدار ہورہا ہے۔کوئی طاقت بلوچستان کے عوام کے حقوق کی بازیابی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
لیاقت بلوچ نے لاہور میں سینئر صحافی، میڈیشن گروپ کے رہنما امتیاز عالم کے ساتھ سیفما کے ہیڈ آفس میں ملاقات کی۔اتفاق کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات/سانحات سے سیاسی منظر یکسر پلٹا کھاگیا ہے۔سیاسی ڈائیلاگ، سیاست میں شدت انتہاپسندی سے آئین، جمہوری انتخابی عمل کے لیے حقیقی خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔جماعت اسلامی اس مرحلہ پر بھی پختہ یقین رکھتی ہے کہ سیاسی قیادت حجاب، جھجھک، ہٹ دھرمی، میں نا مانوں کا رویہ ترک کرے اور سیاسی جمہوری رویہ اختیار کرکے مذاکرات آراستہ اختیار کرے۔قومی قیادت 9 مئی کے المناک اور شرمناک واقعات کی مذمت پر اتفاق کر چکی ہے۔قومی سلامتی کمیٹی نے بھی مفاہمت اور مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔
لیاقت بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی ملک میں آئین کے مطابق عدالتی نظام کے استحکام، آزادی، خودمختاری پر یقین رکھتی ہے۔ماضی میں بھی پی ٹی آئی، مسلم لیگ، پی پی پی نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے ترامیم پر اتفاق کیا۔اس وقت بھی جماعت اسلامی نے اختلاف کیا تھا، آج بھی ہم اسی موقف پر قائم ہیں۔سیاسی کارکنان بالخصوص خواتین کے خلاف قانون سے ماورا اقدامات نہ کیے جائیں۔