غازی یونیورسٹی طالبات کی ہراسگی کے واقعات تشویشناک ہے۔ بساک

149

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں غازی یونیورسٹی میں طالبہ کے ساتھ جنسی ہراسگی کے معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو انتہائی شرمناک قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازیخان فزکس ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کو درخواست دائر کی کہ ان کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ظفر وزیر ، نمبرز اور نوکری کا جھانسہ دے کر بلیک میلنگ کے ذریعے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ پروفیسر کی جانب سے طالبہ کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنانا معاشرے کیلئے ایک بدنما داغ ہوگا جو شاید سیکڑوں طالبات کی تعلیم کے آگے رکاوٹ بنے گا۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ غازی یونیورسٹی جو کہ بلوچ اکثریتی علاقے ڈیرہ غازیخان، راجن پور اور تونسہ میں ہزاروں طلباءو طالبات کے لیے واحد اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے لیکن بدقسمتی سے غازی یونیورسٹی پر انتظامیہ سے لے کر پروفیسرز تک ایسا درآمدی ٹولے کو مسلط کیا گیا ہے جو بلوچ معاشرے اور روایات سے نابلد ہے۔ گزشتہ چند سال میں اسی ٹولے نے غازی یونیورسٹی کو ایک درسگاہ کے بجائے ہراسگی کا اڈا بنایا ہوا ہے۔ فیمیل اسٹوڈنٹس کو نمبرز اور دیگر امتحانی طریقوں کے ذریعے بلیک میل کرکے انہیں جنسی ہراسگی کا نشانہ بنانے کے واقعات ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ اس سے پہلے کیمسٹری اور زوالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسرز نے اپنے طالبات کو بھی اسی طرح اپنی حوس کا نشانہ بنایا لیکن بغیر کسی ایکشن معاملات کو پس پشت ڈالا گیا۔ دو ماہ پہلے سیکورٹی انچارج کی جانب سے ایک لڑکی کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل درجنوں کی تعداد میں مختلف حیلوں حربوں سے طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں اور اس مرتبہ ہیڈ آف فزکس ڈیپارٹمنٹ نے طالبہ کو اپنی درندگی اور حوس کا نشانہ بنایا ہے۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ یونیورسٹی جو کہ ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے اور استاد باپ کی طرح اپنے طالبعلموں سے شفقت برتتی ہے۔ لیکن اس تعلیمی نظام میں کرپٹ اور حوس کے پجاری انتظامیہ اور پروفیسرز کی جانب سے تعلیمی اداروں اور استاد جیسے معزز پیشے کو بدنام کرکے خوف کی علامت بنایا جا رہا ہے۔ غازی یونیورسٹی فزکس ڈیپارٹمنٹ کے متاثرہ طالبہ نے دو ماہ پہلے غازی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو یہ معاملہ رپورٹ کیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے معاملے کی تحقیق کےلیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی اور پروفیسر کے چارجز واپس لیے گئے لیکن دو ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کمیٹی نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی اور پروفیسر تاحال یونیورسٹی میں تعینات ہیں۔ اس سارے معاملے میں دو ماہ گزرنے کے بعد کسی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ طالبہ نے میڈیا کو اس واقعے کے متعلق آگاہ کیا اور خودسوزی کی دھمکی دی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تحقیقات میں سست روی اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مرکزی ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا غازی یونیورسٹی جو کہ بلوچ اکثریتی علاقے ڈیرہ جات کی واحد تعلیمی ادارہ ہے۔ غازی یونیورسٹی میں طلباءو طالبات کے ساتھ ذہنی و جسمانی ہراسگی کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں جس کے باعث بلوچ عوام کے اندر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ہم غازی یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ متاثرہ طالبہ کی درخواست پر فی الفور شفاف تحقیقات کی جائے اور ملوث پروفیسر کو یونیورسٹی سے بے دخل کردیا جائے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں جاری ہراسمنٹ کے خلاف موثر اقدامات اٹھا کر طلباءو طالبات کو ایک پر سکون تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے۔ بصورت دیگر تنظیم کی جانب سے سخت احتجاجی لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔