قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اقوام متحدہ کے زیرانتظام افغانستان پر ہونے والا سربراہی اجلاس طالبان انتظامیہ کو تسلیم کیے جانے یا اس سے مذاکرات پر اتفاق کے بغیر ہی ختم ہو گیا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق منگل کو ہونے والے اس اجلاس کے اختتام پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے مستقبل میں ایک اور اجلاس منعقد کیے جانے کا اعلان کیا تاہم انہوں نے طالبان سے براہ راست مذاکرات کے سوال پر کہا کہ ابھی اس کا مناسب وقت نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد نے اس اجلاس سے قبل بین الااقوامی برادری کی جانب سے طالبان انتظامیہ کو تسلیم کیے جانے کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے اس اجلاس میں شرکت کی جسے اقوام متحدہ نے افغانستان میں انسانی حقوق، طرز حکمرانی، انسداد دہشت گردی اور انسداد منشیات کے حوالے سے ایک مشترکہ موقف کی کوشش قرار دیا تھا۔
گو کہ اس اجلاس کے دوران طالبان انتظامیہ کو تسلیم کیے جانے کا امکان نہیں تھا لیکن انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد نے اس حوالے سے خدشات ظاہر کیے تھے۔
اجلاس کے موقعے پر انتونیو گوتیریش کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہم قطع تعلق نہیں کر سکتے۔ کچھ افراد ایسے روابط کا مطالبہ کرتے ہیں جو ماضی کے اسباق کے حوالے سے زیادہ موثر ہوں جو ہم نے سیکھے ہیں۔‘
انہوں نے اپنے اس بیان کی وضاحت نہیں کی۔ طالبان اس سے قبل 1994 سے 2001 تک افغانستان پر حکمرانی کر چکے ہیں۔
اجلاس کے بعد ایک صحافی نے سوال کیا کہ ’کیا کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے جس میں آپ طالبان سے براہ راست ملاقات کرنا چاہیں گے؟‘
اس کے جواب میں انتونیو گوتیریش نے کہا کہ ’جب ایسا کرنے کا صحیح وقت ہوگا تو میں اس امکان سے انکار نہیں کروں گا لیکن آج ایسا کرنے کا مناسب وقت نہیں ہے۔‘
انتونیو گوتیریش نے طالبان کے خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امدادی گروپوں میں کام کرنے کی اجازت نہ دینا ’ناقابل قبول ہے اور اس سے زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں بالکل واضح کر دوں کہ ہم خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر بے مثال اور منظم حملوں کے سامنے کبھی خاموش نہیں رہیں گے۔ جب بھی لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو خاموش کرایا اور نظروں کے سامنے سے ہٹایا جائے گا، ہم بولیں گے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘
دوحہ اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک میں چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، ایران، جاپان، قازقستان، کرغزستان، ناروے، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ اور ازبکستان شامل تھے۔ تاہم اس اجلاس کے لیے خود طالبان کو بھی مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
ادھر دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’نئی افغان حکومت نے مذاکرات کو مسترد کر دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ ہماری بات سننے اور مسائل کے بارے میں ہمارا موقف جاننے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو وہ ایک قابل اعتماد اور قابل قبول حل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ یک طرفہ فیصلے کامیاب نہیں ہوسکتے۔ افغانستان ایک آزاد ملک ہے۔ اس کی اپنی آواز ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہماری آواز سنیں۔‘
سہیل شاہین نے اتوار کو افغانستان اور پاکستان کے لیے برطانوی دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر اینڈریو میکبری اور افغانستان کے لیے چین کے خصوصی ایلچی یو شیاؤ یونگ سے دوحہ میں ملاقات کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اقوام متحدہ کے ایلچی کی کابل میں سرکاری عہدیداروں کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے، لیکن جب اس طرح کی کانفرنسوں کی بات آتی ہے تو ہمیں مدعو نہیں کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ افغان مسائل کا حل نہیں ہے اور اس کے نتائج مؤثر نہیں ہوسکتے۔‘
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیرخان متقی رواں ہفتے کے آخر میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستانی اور چینی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
اقوام متحدہ کے مطابق جب سے طالبان نے برسر اقتدار آئے ہیں، افغانستان خواتین اور لڑکیوں کے لیے دنیا کا سب سے سخت ملک بن گیا ہے، جو عملی طور پر اپنے تمام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں لڑکیوں پر چھٹی جماعت کے بعد تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے اور خواتین کو کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے، مرد کے بغیر سفر کرنے اور یہاں تک کہ پارکوں میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ متعدد ممالک کے رہنماؤں سے توقع ہے کہ وہ ’اہم مسائل جیسے کہ انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، شمولیتی حکومت، انسداد دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے معاملے میں بین الاقوامی سطح پر کردار کو مضبوط بنائیں گے۔‘