بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے بلوچ وطن پر جاری نوآبادیاتی جبر نے بلوچ سماج کو اجتماعی طور پر موت کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے جہاں ان حاکموں اور ان کے آلہ کاروں کی درندگی اور جبر و بربریت سے عوام محفوظ نہیں۔ نجمہ بلوچ کو بلیک میلنگ اور ہراسانی کے ذریعے خودکشی کرنے پر مجبور کرنے کی وجہ بھی یہی سامراجی منصوبے ہیں جن کی بدولت بلوچ قوم مجموعی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
نجمہ بلوچ کا مقامی ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں بلیک میلنگ و خودکشی نما قتل ہو یا کہ لمہ ملک ناز بلوچ کا سفاکانہ قتل، یہ تمام واقعات کڑی در کڑی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ مقامی سطح پر ریاستی اداروں کی جانب سے سماج کے کرپٹ ترین عناصر و مجرموں کو مسلح کر کے بےجا اختیارات دیے گئے جس کے باعث وہ جسے بھی اٹھائیں، مسخ شدہ لاشیں پھینکیں یا بے بس لوگوں کی چادر و چار دیواری کو پامال کریں ان مجرموں سے نہ کوئی سوال پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان کےلیے کوئی قانون وجود رکھتی ہے۔
مرکزی ترجمان نے کہا ان گھٹن زدہ حالات کو قائم رکھنے میں انہی مقامی سہولت کاروں کا اہم کردار ہے جن کو ریاستی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہونے کے سبب بلوچ سماج کو تاراج کیا جارہا ہے۔ پہلے اگر نوجوانوں پر دہشتگردی کا ٹھپہ لگا کر نشانہ بنایا جاتا تھا اب گھر کی چار دیواری میں بھی بوڑھے، بچوں اور عورتوں کی زندگیاں اور عزتیں محفوظ نہیں۔ بلوچ عوام کو مقامی ڈیتھ اسکواڈز کے سہارے پر چھوڑ کر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔
ان سنگین جرائم کے خلاف تمام ترقی پسند طلبہ تنظیموں، وکلاء برادری، سول سوسائٹی و دیگر سیاسی و سماجی حلقوں سے گزارش کرتے ہیں کہ نجمہ بلوچ کے قاتلوں کے خلاف منظم و توانا آواز بنیں اور بلوچ سماج پر مسلط ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف منظم عوامی تحریک جنم دینے کی جدوجہد جاری رکھیں کیونکہ منظم عوامی تحریکوں کی وجہ سے ہی ان قاتلوں اور مجرموں کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
ترجمان نے آخر میں کہا کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے نجمہ بلوچ کے قتل میں ملوث افراد کی پشت پناہی اور فیملی کو خاموش رہنے پر دباؤ دینے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لا کر متاثرہ خاندان کو تحفظ اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر انصاف فراہم کیا جائے۔