ریکوڈک معاہدہ؛ 9 سال بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسخ کیا گیا – این ڈی پی

201

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے اپنے ہتکھنڈے کے طور پربیشترہی محکوم کے خلاف استعمال ہوئے ہیں جبکہ وہی آئین جب استعماری قوتوں کے سامنے رکاوٹ بنا تو اس میں ترمیم کر کے یا مکمل طور پر روند کر اس رکاوٹ کو دور کر دیا گیا جس کی مثال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 9 دسمبر 2022 کو بلوچستان حکومت اور کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن کے درمیان طے پانے والے ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دینا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کی تصدیق کا مقصد 2013 حکم نامہ جو سابقہ چیف جسٹس افتخار چوردی کی سربراہی میں تین رکنی بیچ نے بیرک گولڈ اور انسٹاگوفٹا کمپنی کے خلاف دیا تھا اس کی اہمیت کو ختم کر دینا تھا ۔

ترجمان نے کہا کہ ایک کمپنی کے کمپنی قوانین کی خلاف ورزی کے پیش رو جو حکم نامہ سپریم کورٹ سے منظور ہوا تھا اسے نو سال بعد اسی سپریم کورٹ نے تبدیل کر کے لوٹ مار کے راہ کو ہوار کیا۔

ترجمان نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کر کے اسکے برخلاف فیصلہ دینا خود غیر آئینی ہے لیکن اس وقت پاکستان کی تمام پارلیمانی پارٹیوں بشمول پی پی پی، پی ٹی آئی، ن لیگ، جمیعت نے یک مشت ہو کو چیف جسٹس کے اس عمل کی حمایت کرتے ہوئے اسے خوش آئندہ قرار دیا۔ مگر وہی چیف جسٹس جب آج عمران خان کی سپورٹ کرنے کے لئےالیکشن نہیں کروا رہا، اسے ضمانت دلوانے میں معاورنت فراہم کر رہا ہے تو اس عمل کو سپریم کورٹ کی بالا دستی اور پارلیمینٹ کی سپرمیسی پر سمجھوتہ بازی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان پارلیمانی جماعتوں کو اب یاد آ رہا کے کہ ایک شخص کو سہولت فراہم کرنے میں آئین کو دوندا جا رہا ہے جبکہ دس دسمبر 2022 کو بلوچستان کے معدنیات کو غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے وفاق کے سپرد کر دئے گئے، یعنی جب بلوچ سائل وسائل کی لوٹ مار ہوتی ہے اور آئین میں اس کے بر خلاف کوئی شک موجود ہو تو اسے راتوں رات ومسخ کیا جاتا ہے تو کسی بھی سیاسی جماعت میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ اسکے خلاف اشارہ کر سکے اور جب وہی حالات خود پر آ گئے تو آئینی بھی یاد آ رہا ہے اور قانون بھی۔لہذا آئین پہلے دن سے ہی بوٹوں تلے روندا جا رہا تھا اور یہ ریاست ایک سیکیورٹی ریاست بن چکی ہے جو بلوچ و دیگر محکوم قوم پر ظلم و زیادتیوں کی ہی وجہ سے آج یہ ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے۔