ریڈی ایشن سکنیس، برتھ ڈیفیکٹس و ماحولیاتی امراض سرمایہ دارانہ کوکھ کی پیداوار ہیں
تحریر: نعیم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
خود کو ڈنڈا بردار دکھانے کے چکر میں راسکوہ/ چاغی کا سینہ چاک کرنا قصہ پارینہ بن چکا ہے جسکے اثرات بلوچ وطن کے باشندے اب بھی بھگت رہے ہیں دوسری طرف اگر سائنسی طریقہ کار کو بروئے کار لاکر ڈیٹا اکھٹا کرکے سائینٹفک میتھڈالوجی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہزاروں 28 مئی جیسے دھماکے ہر روز ہمارے ارد گرد کوہ سلیمان میں یورینیم نکالنے والی کمپنی، ڈی جی خان میں ڈی جی سیمنٹ و کریش پلانٹ فیکٹریوں، حب میں زہریلہ دھواں اگلتی انڈسٹریز، خضدار فیروز آباد میں مائننگ کمپنی کا بغیر سسٹیڈرڈ آپریشن پروٹوکولز( SOPs) کے معدنیات کو چوسنا، زیرو پوائنٹ و سنی ایریا خضدار میں ماربل فیکٹریوں سے زہر آلود سفید سیال کا گراؤنڈ و انڈر گراؤنڈ پانی کو آلودہ کرنا، کوہ سلیمان میں یکبائی ٹاپ( ہزاروں فٹ بلند پہاڑی) پر پلانٹ کو منتقل کرکے پانی و آب ہوا کو تابکاری و غیر تابکاری پلوٹینٹ سے متاثر کرنے اور مزکورہ مثالوں جیسی سینکڑوں دیگر اشکال میں وقوع پزیر ہوکر ہزاروں جانیں نگل چکے ہیں اور یہ عمل تسلسل سے جاری و ساری ہے، بلکہ آئے روز اس میں شدت آ رہی ہے(ٹریفک و دیگر حادثات، مل نیوٹریشن، دوران زچگی زچہ و بچہ کی اموات اور بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی کے اعداد و شمار اس سے الگ ہیں).
یہ جو آئے روز بلوچستان میں بچے مختلف جسمانی، جنسی و دماغی امراض کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں، ہر گلی محلے میں کینسر کی مختلف اشکال نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو موت کی آغوش میں دھکیل رہی ہے، برتھ ڈیفیکٹس اور ریڈی ایشن سکنیس کے سبب معذور بچے پیدا ہوکر زندگی بھر سماج کی چکی میں پس جاتے ہیں یا دردناک موت انکا مقدر بنتی ہے، خواتین گھروں کی چاردیواری میں سانس کے ساتھ تابکاری عناصر جسم میں داخل ہونے سے پھیپھڑوں، معدے و آنتوں کے امراض میں مبتلا ہیں، چشموں، جھیلوں حتیٰ کہ زیر زمین پانی انڈسٹریل گاربیج( Industrial Garbage) سے آلودہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیرونی( جلدی امراض/ الرجی ڈرماٹائٹس) اور واٹر بورن( Water born) امراض تیزی سے سرائیت کرتے جارہے ہیں جن میں محض ملیریا، ٹائیفائڈ، ہیضہ، ہیپاٹائٹس وغیرہ سے اموات کی تعداد کا دیہی آبادیوں میں تخمینہ لاکھوں بنتا ہے.
موت کے ان سوداگروں کے ظلم کو سب سے کم سطح پر نقصاندہ کاروبار ماربل فیکٹری سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان فیکٹریوں سے فاسد مادہ پاؤڈر کی صورت خارج ہوتا ہے جو کہ ہیوی میٹلز( Heavy metals)،کلورائڈز،نائٹریٹس، سلفیٹس و دیگر جان لیوا عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے، یہ چیزیں مسلسل پانی اور آب و ہوا میں ملکر انسانوں، جانوروں اور پودوں کے جسم میں داخل ہوکر خطرناک امراض کا باعث بنتی ہیں، اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نام نہاد ترقی کا لبادہ اوڑھے، ایکسپرٹ اسٹاف، اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروٹوکولز و دیگر حفاظتی اقدامات سے عاری عوام کا خون چوسنے والی انڈسٹریز ہمیں کتنا زیادہ جانی و معاشی نقصان پہنچا رہی ہیں
ان موزی امراض، معصوم جانوں کے ضیاع، جانوروں و فصلات کی صورت معاشی نقصان اور پیدائشی جسمانی و دماغی معذوری کو خدا کے کھاتے میں ڈال کر ہم خدا کے مجرم کہلا سکتے ہیں مہزب نہیں، خدا نے ہمیں جستجو، تحقیق، غور و فکر کرکے حقائق کی چھان بین کرنے سمیت خدا کی سرزمین پر ظلم و نا انصافی، قتل و غارتگری، لوٹ مار اور ظلم و ستم کرنے والوں کے خلاف صدائے حق بلند کرنے کا حکم دیا ہے، اگر ان احکامات سے نظر چرا کر آپ مزہب کے من چاہے پہلوؤں پر ہی قناعت پسند بن کر سب کو نصیب کا لبادہ اوڑھا نا چاہا تو یاد رکھئے آپ دانستہ یا نادانستہ طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کرکے احکام خداوندی سے قطع نظر کر رہے ہیں
ان سب اموات و امراض کا براہ راست زمہ دار سرمایہ دارانہ نظام ہے جسکی جڑیں بہت گھری ہیں بالخصوص بلوچستان میں یہ نظام ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے
جب تک اس نظام کا باریک بینی سے مشاہدہ کرکے، سائنسی تنظیم کاری کے تحت اسکی جڑوں تک ہم دسترس حاصل نہیں کرینگے تب تک ساحل و وسائل کی لوٹ مار سمیت ماس جینوسایڈ( Mass Genocide) کا تسلسل برقرار رہے گا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں