جنگجنگ کی جدلیات (حصہ اول)
تحریر: مہر جان
دی بلوچستان پوسٹ
یہاں بے اعتمادی کو خدا حافظ کہا جاۓ اور بزدلی کو دفن کیا جاۓ ، گوہٹے
مجادلہ (ٹکراؤ) وحدت پیدا کرتا ہے۔ جنگ عام اسی لیے ہے کہ “تشکیل وحدت” کے لیے جدل اور جہد مسلسل سے گزرنا لازم ہے ۔ یہی جدل و جہد “عدل” کی پہچان ہے یعنی بقول ہیراقلیطوس “مزاحمت انصاف ہے” ۔ جس سے تاریخ کی حرکت (Dynamicity) ممکن بنی ہے ۔اس طرح کی تضاد و جدل کو یونان نے جانا اور سوچا تھا تب ہی ھیگل نے کہا کہ “انسان جتنا سوچ سکتا تھا یونان نے سوچ لیا” ہرچند یونان میں جدلیات کا تصور مبہم صورت میں موجود تھا جو ھیگل جیسے نابغہ روزگار پر فلسفہ ہراقلیطوس کے ذریعے سے آشکار ہوا اور ھیگل اسے شعور کی سطح تک لایا۔ دراصل ھیگل کے مطابق فطرت میں “تضاد” ماورا نہیں ہے ھیگل اسے قانون فطرت اور منطقی ہونے سے تعبیر کرتا ہے۔جیسا کہ روشنی اور اندھیرے کا ٹکراؤ(علمیاتی) سے ہی دونوں تصورات کو سمجھا جاسکتا ہے یعنی دوسرے الفاظ میں ان دونوں تصورات کے مقابل آنے کی وجہ سے تصورات کو “کُلیت” میں سمجھنا ممکن ہے۔ اسی طرح جدلیات کی رُو سے ہر تصور اپنے اندر اپنے تضاد کو پالتا ہے جیسے زندگی موت کو پالتی ہے ، جنگ امن کی پرورش کرتی ہے اور غلامی آذادی کی ، ان تضادات کے ٹکرآؤ کی بدولت فطرت میں حرکت سماجی تبدیلی کاسبب بنتا ہے اسی حرکت کو مارکس و اینگلز نے مادے میں دیکھا اور جدلیاتی و تاریخی مادیت کا فلسفہ دیا، فلسفے کی دنیا میں سب سے بنیادی جدل مادہ و ذہن ہے، اسی طرح کے تضاداٹ کے ٹکراؤ کو “جدلیات” کہا جاتا ہے۔
جدلیات کو مارکس ، اینگلز سے لے کر ماؤ تک نے فلسفہ و سیاسیات کے حوالے سے نہ صرف موضوع سخن بنایا بلکہ اس کا اطلاق اپنے اپنے معروضی میدانوں میں بطور ہتھیار کے بھی کیا۔ لیکن دوسری طرف تجربیت پسند فلاسفرز کے ساتھ ساتھ “عقلیت” کے نام پہ جدلیات کی بہت سے فلاسفرز نے مخالفت بھی کی۔ تجربیت پسندوں کی تو بات کسی حد تک سمجھ آتی ہے کیونکہ وہ تجربہ کو ہی علمیاتی میدان میں حرف آخر مانتے ہیں ، لیکن عقلیت پسندوں نے بھی کسی نہ کسی سطح پہ اسکی مخالفت کرکےنہ صرف جدلیات کو سوفسطائیت سے جوڑا بلکہ ڈیکارٹ (عقلیت پسند) کے مطابق “جدلیات”غلطیوں کی نشاندھی ضرور کرتا ہے لیکن سچائ کو دریافت نہیں کرپاتا کہ سچ کیا ہے ؟ ہیراقلیطوس سے لے کر ھیگل تک کی “جدلیات اور فطرت کی ہم آہنگی” کو موضوع تنقید بناکر ھیگل کو بطور خاص ایک “دہشت گرد” فلاسفر کے طور پہ متعارف کرایا ۔کارل پوپر نے باقاعدہ انہیں سماج دشمن جبکہ اڈرنو نے منفی جدلیات پہ جدلیات کے سماج پر منفی اثرات پہ کھل کے لکھا، جدلیات کو فطرت کی تناظر میں “تاریخی جبر” کہا گیا۔یعنی جو کچھ بھی ہورہا ہے، جدلیاتی طور پہ تاریخی جبر کی بنیاد پہ ہورہا ہے جس میں انسان کا اپنا عمل بھی جبر ہے۔ مذکورہ اعتراضات مختلف ادوار میں جدلیات پہ مختلف طبقہ فکر اٹھاتے رہے۔ اس سب کے باوجود اکثر فلاسفرز اور معمارانِ انقلاب اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ جدلیات “وہ کیمیاء گرانہ طلسماتی عمل ہے جس سے کمزور کی ضعف کی ماہیت تبدیل ہوکر طاقتور کو شکست دے سکتی ہے” کیونکہ وہ “ماضی کی تاریخ” پہ نظر رکھ کر “مستقبل کی تاریخ” کو سنوارتے ہیں۔
فطرت کی جدلیات میں “حرکت” واضح ہے جو نہ صرف تضاد کی مرہون منت ہے بلکہ زیبو کے پیراڈکس کے مطابق “حرکت اپنی فطرت میں خود تضاد بھی ہے”۔ ارسطو نے اپنی کتاب آرگینن میں کیٹگریز کے علاوہ حرکت پہ ایک مختصر مضمون باندھا ہے جس میں حرکت کی مختلف شکلوں کو واضح کیا ہے جبکہ ھیگل نے جدلیات کو حرکیات میں واضح دیکھا ہے، اینگلز نے حرکت کو مادے کا جوہر کے بجاۓ طریقہ (Method)کہا ہے بقول اینگلز حرکت کے بغیر مادےاور مادے کے بغیر حرکت کا تصور ناممکن ہے دراصل یہ حرکت ہی ہے جو کسی بھی سماج یا کسی بھی قوم کو “مجرد یکسانیت” نہیں بخشتی بلکہ تبدیلی (جدلیاتی عمل)جاری و ساری رہتی ہے۔ محکوم نہ ہمیشہ محکوم رہتا ہے نہ ہی حاکم ہمیشہ کے لیے حاکم رہتا ہے، حرکت چونکہ تضاد کی مرہون منت ہے ، یہ سماجی تضادات ہیں جسکی کشمکش سے سماجی حرکت (جدلیاتی عمل) تیز تر ہوتی ہے اور سماج میں تبدیلی واقع ہوتی ہے ، یہ تضاد جب لشکر و سپاہ و میدان میں آمنے سامنے ہو تو “جنگ” کہلاتی ہے، جنگ اپنی فطرت میں آفاقی ہونے کے ساتھ ساتھ اک لحاظ سے اضافی ہے اس لیے اسے مکمل طور پہ ہر جگہ “تشدد کے فلسفے” کے پیش نظر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہ اپنایا جاسکتا ہے نہ ہی مکمل طور پہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے “عدم تشدد کے فلسفے” پر عمل پیرا ہوکر رد کیا جاسکتا ہے۔
جنگ کی اپنی جدلیات ہوتی ہے، آپ بے شک جنگ سے لاتعلق اپنے آپ کو سمجھتے ہونگے، لیکن جنگ آپ سے لاتعلق نہیں ہوتی،جدلیات کی بدولت یہ دوطرفہ تعلق تصوراتی حد تک ایک دوسرے سے جدا تو کیے جاسکتے ہیں لیکن عملی طور یہ تعلق اس طرح بندھے ہوتے ہیں، جو کسی بھی صورت لاتعلقی کا سبب نہیں بن سکتی ۔ اسی جدلیات کے بدولت کسی بھی سماج میں کھوٹے اور کھرے کی الگ الگ چھانٹی ہوتی ہے، انسان کا وجود ظاہر میں آنا شروع ہوتا ہے کہ وہ کس قدر مزاحمت کا حامل “وجود” ہے۔ یعنی کسی بھی شخص کا اصل کردار کُھل کر سامنے آتا ہے ۔اسی جنگی جدلیات کی بدولت محکوم اپنی آذادی کا خواب دیکھتا ہے ، وگرنہ گھٹن زدہ ، گرد آلود ماحول میں محکوم اپنی محکومیت کو مقدر مان کر قبول کرتا ہے ۔سر سے لے کر پاؤں تک نظر نہ آنے والی زنجیریں انسانوں پہ تھونپی ہوئ ہوتی ہیں ،بقول روسو ہر کوئ آذادی پانے کی خاطر زنجیروں کی طرف دوڑ رہا ہوتا ہے ۔انسان غیر مرئ زنجیروں میں ہرطرف سے جھکڑا ہوا ہوتا ہے۔ یہ جنگ ہی ہے،جسکی بدولت غیر مرئ زنجیریں نہ صرف نظر آنا شروع ہوجاتی ہے بلکہ یہ زنجیریں پگھل کر آذادی کی راہ کو محکوم کے لئے بنادیتی ہیں ۔ دراصل جنگ کی جدلیات محکوم کی محبت ، امن ، آذادی کو دوام بخشتی ہے، اور حاکم کے لیے دہشت ثابت ہوکر اسے حیوانیت سے انسانیت کے درجے پہ لاتی ہے۔اسی لیے یہ کہنا بے جاء نہ ہوگا کہ “جنگ میں امن”، “جنگ میں محبت”،”جنگ میں آذادی” ہی دراصل “جنگ کی “جدلیات” ہے۔
(جاری ہے)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں