جنگ چلتی رہیگی ۔ جنگ چلتی رہیگی

407

جنگ چلتی رہیگی
تحریر: دلجان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

خطے کے بدلتے حالات، بین الاقوامی قوتوں کے بدلتے مقاصد اور ان تمام الجھنوں و مصیبتوں کا سامنا کرتی بے باک چلنے والی بلوچ قومی شناخت اور بقا کی جنگ جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ طویل جنگ جس نے ہر قسم کے نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود اپنی قوم کی دلی ہمدردیاں بٹورتے ہوئے ایک منظم فوج کی طرح اپنے ہر قسم کے اہداف و مقاصد حاصل کئے۔ مین پاور سے لیکر جنگی تربیتوں تک اور بلوچستان کے کونے کونے میں چلنے والی جنگی مشقیں اسکا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایک گمنام شاعر کا شعر یاد آرہا ہے، کہتے ہیں کہ:
ممنون ہوں جہان کے نشیب و فراز کا
اکثر بگڑ کر خود میری حالت سنبھل گئی

مزاحمت اور شدت!

حالیہ تحریک جس میں ہر بلوچ اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے، بلوچ ہر قسم کی نسل پرستی سے پاک اپنی تحریک کو حصول مقصد کی جانب لے جارہے ہیں۔ بلوچوں کی تحریک نہ تو کسی نام نہاد سردار کی مرہون منت ہے اور نہ ہی سو فیصد کسی بیرونی ملک کی امید پر قائم ہے، آزادی کی جنگ کی سرپرستی کرنے والے ہمیشہ پڑھے لکھے نوجوان رہے ہیں۔ دور جدید کے مطابق جنگی تنظیموں نے اپنے ساتھیوں کے مشوروں اور قوم کے وسیع تر مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ہی دشمن کو مختلف مقامات پر کالی ضربیں لگائی ہیں۔

بی ایل اے کی دہشت!

پاکستانی انتظامیہ، پڑوسی ممالک یا ویسٹرن ولرڈ کی روز اوّل سے نظروں میں کانٹے کی طرح چھبنے والی بے ایل اے جو دنیا کی جانب سے لگائی گئی ہر قسم کی پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے مقصد کی جانب رواں دواں ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ بے ایل اے جسکی ابتدائی کاروائیوں کو پاکستانی نام نہاد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی جگہ نہیں دیتا تھا اور آج یہی تنظیم ہر دوسرے دن بین الاقوامی خبروں میں نظر آتی ہے، جسے پڑھا جاتا ہے، جس پر بحث ہوتی ہے۔ پاکستانی پروپیگنڈہ اپنی جگہ مگر جنگوں پر باریک نظر رکھنے والے انٹرنیشل تھنک ٹینکس بلوچوں کی قومی فوج یعنی (بے ایل اے) کو کافی فوکس کئے ہوئے ہے۔ تنظیمی اصولوں اور عالمی جنگوں کی پاسداری کرتا ہوا بے ایل اے کا ہر ایک سپاہی اپنے ہر عمل سے دنیا کی ماضی یا حال میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے لئے ایک مثال قائم کر چکا ہے۔ بلوچوں کی جنگی ٹیکنیکس کو جدید اس لئے بھی سمجھا جاتا ہے کہ تنظیم کے فیصلے پر بلوچستان کی بلند و بالا پہاڑوں سے اترا ایک نوجوان کیسے صحراؤں اور میدانوں کا سینا چیرتے ہوئے کراچی جیسے شہر میں آکر بغیر کسی کو نقصان پہنچائے اپنا ٹارگٹ اچیوو کرتا ہے۔ کیا دشمن اب بھی بلوچ کے مزاج کو سمجھنے سے قاصر ہے ؟ کیا اب بھی دنیا بلوچ کو غیر مہزب کہیگی ؟ ان باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک نہ تو کسی زاویے سے کمزور ہے اور نہ ہی جنگی اصولوں سے بے خبر اور نہ ہی اس کی سربراہی کوئی انایجوکیٹڈ شخص کررہا ہے۔

بی ایل اے کی سابقہ کاروائیوں یا لیڈرشپ پر کئے گئے تبصرے و تجزیے بہت ہوچکے اور وہ ہر جگہ دستیاب بھی ہیں تو اس طرف جانب موضوع کو پھیرنا مناسب نہیں مگر حالیہ لیڈر شپ کی بدلتی حکمت عملیوں نے چائینا جیسی مضبوط معیشت و فوجی طاقت رکھنے والا ملک بھی اپنے حساس ترین انسٹیٹیوٹ کنفیوشس ڈیپارٹمنٹ کو بند کر نے مجبور ہوچکا ہے۔ مجید برگیڈ اس وقت خطے میں ایک خوف کی علامت بن چکا ہے، مگر یہ خوف کسی مظلوم کی نظروں یا دلوں میں نہیں پایا جاتا بلکہ اس سے خوفزدہ خود کو دنیا کی طاقتیں سمجھنے والوں کے سروں پر سوار ہوچکا ہے۔ فدائیوں کے بڑھتے ہوئے حملے اور بالخصوص شاری بلوچ جیسی تعلیم یافتہ خاتوں کا خود کو سج دھج کر میدان جنگ میں اترنے کے عمل نے دنیا بھر کے لوگوں چونکا دیا ہے اور اس واقعے کو سال بھر کا دورانیہ گزرنے کے بعد بھی اس پر اسی طرح سے بحث و تبصرے جاری ہیں۔

پاکستانی صحافیوں کی ہُلڑ بازی:

پاکستان کے نام نہاد صحافیوں نے بلوچستان میں جاری آزادی کی جنگ کو کسی “گُلو بَٹ” کی لڑائی سمجھ رکھا ہے کہ انکی بدمعاش فوج نے ایک بندہ دھر لیا اور بات ختم۔ بلوچ پاکستان کے جیٹ، ہیلی کاپٹرز، توپوں اور ہر قسم کے پروپیگنڈہ کا کئی دہائیوں سے سامنا کرتے آرہے ہیں۔ ٹوئیٹر پر موجود صحافی اپنی فروفائل بِلڈنگ کے لیے پہلے بلوچستان کا سہارا لیتے ہیں اور پھر اس میں ریاستی بیانیے کا تڑکا دیکر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بلوچ اس کھیل کو باخوبی سمجھتا ہے۔ بلوچ دور جدید میں اپنی بات کو دنیا تک پہنچانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، اسے کسی نام نہاد پروگیریسو، کمیونسٹ یا دوسرے تیسرے کاغزی انقلابیوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلوچ کی لگائی چنگاری کی چمک اس اندھیرے سے گھری ہوئی دنیا تک ویسے ہی با آسانی پہنچ جاتی ہے۔ بلوچ ساتھی اپنی آپسی رابطہ کاری پر توجہ دیں نا کہ کسی ٹوئیٹر پر مورچہ زن چاپلوس پاکستانی صحافی یا نام نہاد انسانی حقوق کے چیمپئن یا خانممخواہ کے انقلابی کے پیشے دوڑ لگائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں