بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں شدت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ ماما قدیر بلوچ

149

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5047 ویں روز جاری رہا۔

منگچر سے سیاسی و سماجی کارکنان برکت حسین بلوچ، محمد بلوچ اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ستر سالوں سے جاری انسانی حقوق کی پامالیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی جارہی ہیں، بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کرکے ان پر انسانیت سوز تشدد کے بعد ماورائے عدالت قتل عام روز کا معمول بن چکا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایسا کوئی فرد یا خاندان نہیں جو انسانی حقوق کی پامالیوں سے متاثر نہ ہو۔ نوجوان بزرگ ،خواتین، بچے اور عرض ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی زندگی طاقت کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے اجیرن بن چکی ہے ۔ طاقت کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے کئی خاندان اپنے ننگ ناموس چادر چاردیواری کی تقدس کی خاطر نقل مکانی پر مجبور کئے جاچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچوں کو جبری اغوا اور ان کے ماورائے عدالت قتل عام میں شدت 2009 کے اوائل میں لائی گئی جب سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر بلوچوں کو جبری لاپتہ افراد کی تعداد ساٹھ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور انسانی حقوق کی شدید ترین پامالیوں کا مظہر ہے جس سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اکثر لاشوں کی برآمد گی اور ان کو ڈی این اے کے بغیر لاوارث سمجھ سے بالا تر ہے۔ جو حکومت بلوچستان کی جبری لاپتہ بلوچ افراد معاملے کو سرد خانے کی نذر کرنے اور ایسے واقعات میں ملوث افراد اور اداروں کو بری الذمہ قرار دینے کی دانستہ کوشش ہے اور ہم اس جرم میں حکومت بلوچستان سی ٹی ڈی ایف سی کو شریک قرار دیتے ہیں مسخ شدہ لاشوں کی برآمد گی اور اجتماعی قبروں کی برآمدگی کے واقعات بلوچستان میں نئے نہیں اس سے پہلے بھی توتک، پنجگور، ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے جنگ سے متاثر علاقوں میں اجتماعی قبریں دریافت کرچکی ہیں جو لاپتہ افراد کی تھیں ۔ اور آج بھی برآمد ہونے والی لاشوں کا تعلق بلوچستان کے جبری لاپتہ افراد سے ہیں۔