آپریشن زرپہازگ – سنگت مہروان خارانی

568

آپریشن زرپہازگ

تحریر: سنگت مہروان خارانی

دی بلوچستان پوسٹ

قوموں کی زندگی کا انحصار بہادری، جواں مردی اور بے خوفی پر منحصر ہوا کرتا ہے۔ زمانہ قدیم سے یہی دستور چلا آرہا ہے کہ طاقتور قوم اُس قوم کو اپنا محکوم بنا لیتی ہے جس میں بہادری، جواں مردی اور خودداری کا فقدان ہوتا ہے۔

بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں بار بار شکست کھانے کے باوجود قابض پنجابی فوج کو ہوش نہیں آیا کہ وہ جس قوم سے ٹکرا رہے ہیں وہ بلوچ وطن کے آزادی کیلئے کٹ تو سکتے ہیں لیکن اس جنگ سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔

بلوچستان کی تاریخ ایسی بہادر سرمچاروں سے بھری پڑی ہے جو قربانی کی لازوال مثالیں قائم کرتے ہوئے کچھ شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے ہیں تو کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔

قوموں کی تاریخ میں کچھ ایسے دن بھی آتے ہیں جو قربانی کا تقاضا پیش کرتے ہیں اور بلوچستان کی تاریخ میں 11 مئی 2019ء کا دن ایک ایسا ہی دن تھا جب چار بلوچ فدائین نے سخت سیکورٹی حصار توڑ کر گوادر کوہ باتیل میں واقع فائیو اسٹار ہوٹل پرل کانٹینینٹل میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے

حملہ اس قدر شدید نوعیت کی تھی کہ چند ہی گھنٹے میں عالمی سطح کی نیوز چینلز پر حملے کی خبر پوری دنیا میں شائع ہوگئی، چند ہی گھنٹے گزارنے کے بعد قومی فوج، بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ فدائی ونگ مجید بریگیڈ نے سرنجام دیا اور حملے میں درجنوں بیرونی سرمایہ کار اور فوجی اہلکار ہلاک ہوئے، اور یہ حملہ چار فدائی جانباز حمل فتح بلوچ عرف حبیب، اور اسد بلوچ عرف محراب، مُنسِب بلوچ عرف کریم، کچکول بلوچ عرف کمانڈو نے سرنجام دیں ۔

یہ وہ بہادر سپوت تھے جو نمایاں خدمات سر انجام دے کر دادِ شجاعت دیتے ہوئے بلوچ قوم اور بلوچستان پر نثار ہوگئے۔ بہادری اور دلیری سے بلوچ سرمچاروں کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہماری سرمچاروں کا ہر جوان بہادر اور دلیر ہے۔ یہ ان جانبازوں کی داستانیں ہیں جنہوں نے شہادت کا جام شوق نوش کیا اور ایسی انمٹ داستان رقم کر گئے کہ جس پر بلوچ قوم کو بجا طور پر فخر ہے۔

11مئی 2019ء کی جنگ بلوچ وطن کے ان چار بہادر جانبازوں کی داستان ہے جنہوں نے قابض پنجابی فوج اور اُس کے شراکت دار چین کی سینے پر وار کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ بلوچ سرمچار بلوچ قوم اور بلوچستان کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑنے اور اسے میلی نگاہ سے دیکھنے والی ہر آنکھ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ قابض پاکستانی فوج کے انخلا تک شدت کے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

غلام قوم اور غلام وطن کو آزاد کرانے کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے اور قربانی بھی ایسی جو ہر ایک کی بس کی بات نہیں، یہ قربانی صرف وہی لوگ دیتے ہیں یا دے سکتے ہیں جن کو اپنی وطن سے پیار ہوتا ہے اور وہ وطن کی آزادی کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی جان اور مال وطن پر نثار کرتے ہیں

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ محض ہتھیاروں سے نہیں، جذبوں سے جیتی جاتی ہے اور اس وقت یہ جذبہ بلوچ قوم میں پیدا ہوچکی ہیں، یہ جذبہ ہی ہیں کہ ایک بلوچ جہد کار خود فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کب اور کہا دشمن پر قہر ثابت ہوکر اس دنیا سے امر ہوکر بلوچ قوم کا سر فخر سے بلند کرنا ہے، بلوچ قوم کے دلوں میں ایسا جذبہ ہے، قابض پنجابی فوج تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت بلوچ جہد کاروں کو شکست نہیں دے سکتا۔

آپریشن زرپہازگ میں شہید ہونے والے بلوچ فدائین ہماری دلوں میں زندہ ہیں اور تا قیامت زندہ رہینگے، فدائین کو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ سنہری الفاظ میں لکھا اور یاد کیا جائیگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں