سوراب الیکشن
تحریر: شیہک میروانی
دی بلوچستان پوسٹ
نظریاتی و فکری پیرائے میں، میں بلوچ قومی سیاست میں پارلیمانیت پسندی، ریاستی سطح پر منعقدہونے والے نام نہاد انتخابات کو مجموعی طورپر زنجیروں میں جکڑے غلامی کی طول اور پلانڈ منصوبے کی توسیع اور ترویج سمجھتاہوں، جس کے براہ راست معنی و مفادات ریاست کی حیثیت کو طاقتور بنانے اور خطے میں واقع پزیر اقوام کی تقدیر سے کشتی، دولت کی زرائع تک رسد، انسانی زیست کے معاملات میں حریت سے انکار و علمی سطح پر گردشی تحریکوں کو کائونٹر کرنےکا پلان و سرگرمی تصور کرتا ہوں،لیکن یہ ممکنات میں سے کہ مجھ سے اس وقت حالات کی تپش وجنبش میں جلنے والے کئی فکری جہد کار اختلاف رائے رکھتے ہوں، لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی محکوم کیلئے حاکم کی کوئی پالیسی ثمر آور ہوہی نہیں سکتی، جب اسے آپکی ماضی ،خوبصورت تاریخ، شناخت کی جنگ اورقدرتی وسائل کی تہہ و منڈی میں دام معلوم ہو، میں ہر صورت ایسی طاقت کی مکّارانہ پالیسیوں کو محکوموں کیلئے موت کا سامان سمجھتا ہوں، قبضہ گیر کی ہر عمل محکوم کیلئے حرام اور موت کودعوت دینی والی سُور کی مانند ہے جسے ہر سطح پہ کچلنا،ملیا میٹ کرنا اور شکست دینا ہی زریعہ نجات ہے وگرنہ ناک رگڑے موت کو قبول کرناہی مقدر ٹھہرتاہے،ایسی تعفن زدہ اور بدبودار موت سے خداکی پناہ۔
ہماری( بلوچ ) اجتماعی زندگی ہر حوالے سے ریاستی منصوبوں کا شکار ظلم اور ناانصافی کی داستان کبیرہ ہے قبضہ گیرریاست بندوق ،گن شپ ہیلی وجیٹ طیارے،ریاستی مُّلا، اسٹیٹ اسپانسرڈ نواب، سردار و میر ،مذہبی کارڈ کی سیاست اور کرائے کے دلال ( ڈیتھ اسکواڈ) کے کارندوں کو بلوچ کُش منصوبوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے استعمال کرتے ہیں جیسے کسی پالتو جانور کو اسکی محدود مقدار میں گَلی سڑی خوراک مالک سے وفاداری کی مد میں ملنا زریعہ پیٹ پوجا مقصود ہو،ایسے گماشتوں کا کردار روزاول سے بلوچ جہد میں دشمنِ ثانی اور شریک جرم کے ہونے کے ساتھ بازوئے قاتل کا رہاہے،ایسے بد مست گھوڑوں کا سرقلم کرنا، کچلنا ہماری اجتماعی زندگی کی بقاءو تحفظ کیلئے انتہائی ضروری بلک لازمی امرہے، ہرصورت ایسے گماشتوں سے جنگ جاری رہنا چاہئے-
مجھے جھالاوان( سوراب ) سے ہماری تاریخ کے اوراق میں میر میرو میرواڑی سے لیکر میر بجار خان میروانی کی عصر یاد آتاہے ،اس جہد کے آثار کیا تھے اور مرکزیت عوام کو کیوں حاصل تھی یہ تاریخ کے پنوں میں محفوظ ہے ، انکی شیریں جہد نے اُس وقت کے حالات کے سامنے عوامی سطح پر کتنی پزیرائی حاصل کی وہ باعث اِفتخار و سربُلندی ہے ،میر بجار خان میروانی ہماری تاریخ کے پنُّوں میں متاثر کن کردار کے طورپر ہماری رہبری کرتے رہینگے
پانچ اپریل کوسوراب میں ٹائون کے انتخابات میں عوامی سطح پر بننے والی اتحادی ( پینل ) کو مُلّا ملٹری خفیہ اتحاد نے جس طریقے سے زِک پہنچائی اور ایک ملٹری ریاست کی پالیسیوں کی نشاندھی کے زمرے میں آتاہے۔ حالیہ ٹاؤن الیکشن سوراب کے اجتماعی شعور،ہماری فکری جہد اور لاشعوری کا اٹھنے والا جنازہ تھا جسکی امامت ایک رجعت پسندجماعت( جمعیت ف) کے ایلیکٹیبل( ظفر زہری ) نے پڑھائی, یہ عمل کتنا بھیانک ہے کہ رجعت پسند جماعت کے کندیڈیٹ کو جیت کی خوشی اور قوم پرست جماعتوں کی اتحاد کو شکست فاش کرنے کے بعد چیئرمین ٹائون کمیٹی مجیب الرحمان کو وڈھ میں شفیق مینگل کی بیٹھک میں ہار پہنائے گئے،ریاستی دلال وسرغنہ ڈیتھ اسکواڈ شفیق مینگل کے اعمال و کردار سے کون واقف نہیں, توتک سے برآمد شدہ اجتماعی قبریں ہوں یا بلوچ نواجوانوں کی گولیوں سے چھلنی اور مسخ شدہ لاشیں یا پھر ڈرل شدہ ڈیڈ باڈیز__ ہر حوالے سے یہ کردار بلوچ کیلئے ناقابل قبول اور انتہائی تکلیف دہ رہاہے،اس ملکِ رئیسی میں سیاست محض ان کرداروں کیلئے جائز ہے جنکا تعلق براہ راست ریاست و اسکے قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے ہو یا پھر اداروں کی پشت پناہی حاصل کرنے والے دَلّالوں،کاسہ لیسوں،المعروف ڈیتھ اسکواڈز،مذہب کی نام پر قائم جماعتوں کا ہی استحقاق ٹھرتا ہے اور وہی اس عمل کے اصل حقدار ہیں – عوامی مفادات،فکری سطح پر جہد کرنے والی ایک جہد کار اور سماجی اسٹرکچر کو بہتر بنانے والے کسی طورپر اس عمل کا حصہ ہوہی نہیں سکتے جب تک کہ انکا تعلق براہ راست ریاست کے بناوٹی معبودوں اور ملٹری اکیڈمی میں تربیت پانے والے مجرموں میں سے نہ ہو-
ملک کی معروف مذہبی جماعت جمعیت (ف) کا کردار بلوچستان میں ہر حوالے مشکوک اور منفی رہاہے چاہے وہ عام انتخابات ہوں،انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہوں،ظلم و بربریت کے بڑھتے ہوئے واقعات اور بلوچ نوجوان،خواتین، بچوں کی جبری گمشدگیاں ہوں یا پھر سی ٹی ڈی کی جعلی انکائونٹر سمیت تسلسل سے گرائے جانی والی مشخ شدہ لاشیں ہوں، اس ضمن میں مزکورہ جماعت کا کردار انتہائی مجرمانہ و تماشائی سے زیادہ کا نہیں رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی نظریات کے تناظر میں بلوچوں کا مذہب و رجعت پسند جماعتوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ دوہزا تیرہ کے الیکشن میں نیشنل پارٹی نے خضدار سے ریاستی کارندہ مُّلا شفیق مینگل سے اتحاد کیا تھا جو آج تک این پی کی سیاست پہ لگا سیاہ کالک ہے یہ خود نیشنل پارٹی و جماعت کےنظریاتی سنگتوں کیلئے باعث ہزیمت و شرمساری ہے
مذہبی شدت پسندی پاکستان کا ایک ایسا دیرینہ مسئلہ ہے جو کم ہونے کے بجائے وقت کے ساتھ پھلتا پھولتا جارہا ہے، بلوچستان میں دیگر اکائیوں کی نسبت مذہبی شدت پسندی بالعموم م بلوچ علاقوں میں نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے بالخصوص مکران میں، تاہم بلوچستان میں جہاں بلوچ قوم پرست سیاست کی اثر پزیری رہی ہے وہاں مزہبی جماعتوں کا فروغ نہ ہونے کے برابر ہے لیین ریاستی سطح پہ انکی امداد ہر وقت جاری رہی ہے، مذہبی ذہنیت کے حامل جمہوری سیاسی کارکنوں کی موجودگی رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد جہاں مدارس کی تعداد میں اچانک خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کوملا، وہاں جمعیت علما اسلام جیسی بنیاد پرست سیاسی جماعتوں کو سیاسی طور پر قدم جمانے کا ماحول بھی فراہم کیا گیا۔
طاقت ور قوتوں کی کوشش ہوگی کہ ان کے مفادات کی راہ میں حائل وہ خطے کی خالص قوم پرستانہ سیاست کو مذہبی سوچ سے پراگندہ بنائیں جیسا کہ گوادر میں مولانا ہدایت الرحمن کی صورت میں جماعت اسلامی کی اسپیس دینے کی مہم وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سوچ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہاں بلوچستان میں بی ایس او کی سیاسی تربیت آج بھی اپنی جگہ منظم اور مستحکم ہے اسے آسانی سے شکست نہیں دیا جاسکتا۔ اس سے پہلے بھی کچھ ایسی کوششیں کی گئیں جو کارگر نہ ہوئیں، 1990 کی دہائی کے وسط میں نیشنلزم کے خلاف فرقہ وارانہ تفرقہ زکری اور سُنی تنازعہ کی صورت پیدا کیا گیا لیکن مضبوط قوم پرست سیاسی سوچ کے سامنے قوم یہ کوشش ناکام ہوئی، مذہبی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے کئی سالوں سے سخت محنت ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اب اسے نیشنل ازم کے خلاف کھل کر استعمال کیا جانے گا۔
حالیہ سوراب میں ٹائون کمیٹی کی الیکشن ملا ملٹری اتحاد کی کامیابی انہی سلسلوں کی کڑی ہے کہ ریاست اپنی منصوبوں کی تکمیل کیلئے بلوچستان کی مذہبی جماعتوں کوسیاست میں کھل کر مددفراہم کرکے بلوچ نیشنلزم و نیشنلسٹ قوتوں کو شکست دینا چاہتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں