یونیورسٹی آف بلوچستان، معاشی اور تعلیمی تنزل کا شکار
تحریر: جعفر قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے طلباء و طالبات کی تعلیمی ادوار اور سرگرمیوں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے ذہین، باصلاحیت اور خدائے داد صلاحیتوں سے بھر پور طلبہ صرف اپنی مدد آپ کے تحت اپنے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ نا تو بلوچستان کے حالات طلبہ کو تعلمی میدان میں آگے جانے دے سکتے ہیں اور نا ہی حکمران، سیاستدان، سیاسی تنظیمیں اور میر و معتبرین۔
اسکی واضح مثال صوبے کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ بلوچستان ہے جو کہ مشکلات کا شکار ہے یا تو پھر خود ایک مشکل اور حل طلب معمہ بن چکا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یونیورسٹی آف بلوچستان میں طلباء تنظیموں کو یا تو اس حد تک مجبور کیا جاتا رہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے احاطے میں ہفتوں کلاسز کا بائیکاٹ کرکے بیٹھ جائے اور اپنے حفاظت اور سلامتی کیلئے ہر در کو کھٹکٹاتے رہیں یا تو خود ان تنظیموں کو اپنی سیاست چمکانے کیلئے یونیورسٹی کے علاوہ کہی اور جگہ نہیں ملتی جہاں بیٹھ کر آسانی سے تعلیمی نظام کو مفلوج کیا جاسکتا ہیں ۔
ہماری سیاست کی تو خیر ہے اوپر سے تعلیم و تعلیمی اداروں کو بھی مفلوج بناکر قوم کو کہی صدیاں پیچھے دھکیلا جارہا ہے ۔ یہ بات صرف میں نہیں بلکہ یونیورسٹی کے اندر موجود ہر شخص جانتا ہے کہ ہفتے، مہینے اور پھر سمسٹر میں انکی کتنی کلاسز ضائع اور کتنی کارآمد ہوتے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ اب سردیوں کی چھٹیوں کے بعد جامعہ کے تمام ملازمین نے کلاسز کا بائیکاٹ اس لئے کیے ہیں کہ انکی تنخواہیں اور ڈیلی ویجز نہیں دی جارہی۔ ملک دیوالیہ ہو نہ ہو جامعہ بلوچستان معاشی حوالے سے اب اور تعلیمی حوالے سے بہت ہی پہلے دیوالیہ ہوچکی ہے۔ یاد رہیں یونیورسٹی آف بلوچستان جو کہ پہلے بہت سے دانشور، سیاست دان، حکمران، رہنما، قلمکار ادیب اور بہت سے اعلیٰ شخصیات کو جنم دیتی رہی تھی اب سیاستدانوں کی شکل میں لٹیرے، بد خواہوں اور تفرقات کو جنم دے رہی ہے جو کہ صوبے کی ساکھ پر وار کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔
جامعہ بلوچستان جو کہ 1970 سے کئی دہائیوں تک اچھے خاصے کم یا زیادہ پڑھے لکھے سیاستدانوں، رہنماؤں اور کارکنان کو ڈگریاں تھما کر فارغ التحصیل کرتی رہی اب اسی معیار سے نیچے گر چکی ہے۔ ہاں البتہ ڈیپارٹمنٹ اور بلڈنگ و عمارات کی تعداد میں دن دگنی رات چوگنی اضافہ ہوتی جارہی ہے مگر کون جانے کہ بلوچستان کو عمارات کی نہیں بلکہ ماہرین، محققین اور ان طلباء کی اشد ضرورت ہے جو بلوچ قوم کی خیر خواہی و ترقی کو اپنا مقصد حیات سمجھنے لگے اور تعلیمی و تحقیق و جدید دور کے تقاضوں کے مطابق صوبے اور قوم کا نام روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جامعہ میں تعلیمی نظام ہمیشہ سے مشکلات اور رکاوٹوں کا شکار ہے تو ایسے تعلیم یافتہ افراد کہا سے پیدا ہو۔
علاوہ ازیں، جامعہ بلوچستان اب معاشی تنزلی کا شکار ہے جسکی وجہ سے تعلیمی اور درس و تدریس کا نظام مکمل یا تو جزوی طور پر مفلوج ہوکر رہہ گئی ہے۔ ایچ ایس سی کی طرف سے ادارے کو چلانے والے سب سے بڑی امتحانات (بے اے پرائیویٹ و دیگر) پر پابندی کیا لگی کہ جامعہ نے چلنے سے صاف انکار کردیا اور یہ تو طے ہے کہ معاشی اعتبار سے رکنے والے افراد، ادارے یا ملک زندگی کے ہر دوڑ میں پیچھے ہی رہ جاتے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ صوبے کی سب سے بڑی اور پرانی جامعہ ہی تنزلی اور معاشی و تعلیمی بدحالی کا شکار ہے تو صوبے کی دیگر جامعات سے کیونکر کوئی اچھے توقعات رکھی جائے؟
حکومت کی زمہ داری ہے کہ جامعہ بلوچستان کے تمام تر سیاسی، معاشی اور دوسرے مسائل پر توجہ دے کر اسکے احاطے میں امن قائم کریں اور طلباء و طالبات ، اساتذہ و دیگر ملازمین کو تمام حفاظتی، تعلیمی اور معاشی سہولیات مہیا کریں تاکہ صوبے کی سب سے بڑی جامعہ تباہی سے بچ کر ایک بار پھر سے عظیم لوگ پیدا کرنے کے درپے ہو ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں